Muztar Khairabadi (Iftikhar Hussain)
- 1865-27 March 1927
- Khairabad, India
Introduction
Ghazal
آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا نہ وہ پوچھے
انہوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
انہوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں
دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے
دور کیوں جاؤں یہیں جلوہ نما بیٹھا ہے دل مرا عرش ہے اور اس پہ خدا بیٹھا ہے بت کدہ میں ترے جلوے نے تراشے
یہ تم بے وقت کیسے آج آ نکلے سبب کیا ہے
یہ تم بے وقت کیسے آج آ نکلے سبب کیا ہے بلایا جب نہ آئے اب یہ آنا بے طلب کیا ہے محبت کا اثر
دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا
دل لے کے حسینوں نے یہ دستور نکالا دل جس کا لیا اس کو بہت دور نکالا زاہد کو کسی اور کی باتیں نہیں آتیں
آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں اے تری شان کہ پانی بھی ہے انگاروں میں دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام
اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی تم تو ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی رسم عشق غیر اور میں یہ بھی خوب ایسی کہتے
محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی چلو جاؤ بیٹھو کبھی کی بھی تھی بڑے تم ہمارے خبر گیر حال خبر بھی ہوئی تھی خبر
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا بہانے سے خدا نے مار ڈالا جفا کی جان کو سب رو رہے ہیں مجھے ان کی وفا
سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے کہاں تک جان پر کھیلیں جدائی دیکھنے والے ترے بیمار غم کی اب تو نبضیں بھی نہیں
جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم
جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم ہنس کے بولے تمہیں جینا تھا تو مر کیوں نہ گئے ہم تو
حوصلہ امتحان سے نکلا
حوصلہ امتحان سے نکلا جان کا کام جان سے نکلا درد دل ان کے کان تک پہنچا بات بن کر زبان سے نکلا بے وفائی
Sher
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مضطر خیرآبادی
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا مضطر خیرآبادی
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے مضطر خیرآبادی
بوسے اپنے عارض گلفام کے
بوسے اپنے عارض گلفام کے لا مجھے دے دے ترے کس کام کے مضطر خیرآبادی
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں مضطر خیرآبادی
برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں
برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے مضطر خیرآبادی
لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو مضطر خیرآبادی
جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے
جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے کبھی نیچے بھی نظریں ڈال اونچے آسماں والے مضطر خیرآبادی
وقت آرام کا نہیں ملتا
وقت آرام کا نہیں ملتا کام بھی کام کا نہیں ملتا مضطر خیرآبادی
یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا
یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا بھول جانا بھی تم نہیں بھولے مضطر خیرآبادی
اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا
اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا اک تم ہو کہ تم نے ہمیں رکھا نہ کہیں کا مضطر خیرآبادی
اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے مضطر خیرآبادی