Peer Naseer Ud Din Naseer Gilani
- 14 November 1949 – 13 February 2009
- Golra sharif, Pakistan
Introduction
پیر سید نصیر الدین 14 نومبر 1949 کو گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 20 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ایک عظیم مفکر اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پیر نصیر الدین سجادہ نشین گولڑہ شریف کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اور اپنی آزادی سوچ اور فکر میں قومی فضیلت کا شاعر تھا. وہ بہت سارے مضامین پر چالیس کتابوں کا دانشور ، محقق اور مصنف تھا. اس کی شاعرانہ کتابوں نے تعریف حاصل کی تھی. پیر صاحب روایتی تصوف کے خلاف تھے اور انہوں نے شخصیت کی نشوونما کے لئے اخلاقی اور روحانی تربیت کے ذریعے کو منتخب کیا. انہیں پاکستان اور بیرون ملک میں بھی بہت زیادہ مقبولیت حاصل تھی، اور وہ تبلیغ کے اہداف کے لئے یورپ کا دورہ کرتے تھے. پاکستان کی مشہور ادبی ، دانشورانہ اور روحانی شخصیت ، گولڑہ شریف کے پیر سید نصیر الدین نصیر جمعہ کے دن 13 فروری 2009 میں انتقال کر گئے. شیخ الاسلام ڈاکٹر. محمد طاہر القادری اور دیگر حکام نے پیر صاحب کی افسوسناک موت پر گہری تکلیف اور غم کا اظہار کیا ہے. پیر سید نصیرالدین نصیر کی موت کے ساتھ ہی ، ملک ایک عظیم شاعر، اور روحانی عالم سے محروم ہو گیا۔
Ghazal
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو قدم اٹھائے جو
غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں جاں بلب ہے ترا بیمار سنا ہے کہ نہیں وہ جو آیا تھا تو دل لے
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو میں خود اک قد آدم آئنہ ہوں ترا اپنا سراپا دیکھنے
کوئی اس دشت وفا میں نہ چلا میرے بعد
کوئی اس دشت وفا میں نہ چلا میرے بعد ذرے ذرے پہ مرا نقش رہا میرے بعد یوں نہ پھر ہو گا کوئی نغمہ سرا
تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا مے خانہ الگ مے کشی کے ساتھ لطف رقص پیمانہ
آنا جانا تو ہے واعظ مرے کاشانے تک
آنا جانا تو ہے واعظ مرے کاشانے تک ایک دن آپ چلے آؤ گے میخانے تک مسند پیر مغاں دور بہت ہے مجھ سے ہاتھ
سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا
سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا نشہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا لطف کر ظلم سے قابو میں نہیں آنے
ہنس دئیے چمن میں گل کس لئے خدا جانے
ہنس دئیے چمن میں گل کس لئے خدا جانے کیا کہا بہاروں نے بات یہ صبا جانے وہ ہمیں الگ سمجھے وہ ہمیں جدا جانے
وفا ہو کر جفا ہو کر حیا ہو کر ادا ہو کر
وفا ہو کر جفا ہو کر حیا ہو کر ادا ہو کر سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر میرا کہنا یہی
پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں
پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کہ بیٹھے ہیں وہ سچ مچ ہم سے ناخوش ہو گئے یا بن کہ بیٹھے ہیں غضب
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی وہ نگاہ شوق سے دور ہیں رگ جاں سے لاکھ قریں سہی ہمیں
کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا جواب دو
کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا جواب دو برباد کیوں کیا ہے خدارا جواب دو کیا تم نہیں ہمارا سہارا جواب دو آنکھیں ملاؤ ہم
Kalam
Sher
میں یہ جانتے ہوئے بھی تری انجمن میں آیا
میں یہ جانتے ہوئے بھی تری انجمن میں آیا کہ تجھے مری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
جو گلہ کیا ہے تم سے تو سمجھ کے تم کو اپنا
جو گلہ کیا ہے تم سے تو سمجھ کے تم کو اپنا مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی پیر نصیر الدین
یہ کرم ہے دوستوں کا وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے
یہ کرم ہے دوستوں کا وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے کہ نصیرؔ پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی پیر نصیر الدین
دین سے دور نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
دین سے دور نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں تیری دہلیز پہ ہوں سب سے الگ بیٹھا ہوں پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
میرا انداز نصیرؔ اہل جہاں سے ہے جدا
میرا انداز نصیرؔ اہل جہاں سے ہے جدا سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام
یہی مسلک ہے مرا، اور یہی میرا مقام آج تک خواہش منصب سے الگ بیٹھا ہوں پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
نصیرؔ ایسے اشعار ان کو سناؤ
نصیرؔ ایسے اشعار ان کو سناؤ وہ شرمائیں بھی مرحبا کہتے کہتے پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
ہر گھڑی اس کی معیت کا تصور ہے نصیرؔ
ہر گھڑی اس کی معیت کا تصور ہے نصیرؔ یہ بھی ہوتا نہ مرے ساتھ تو تنہا ہوتا پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
تو ہی بتلا اس تعلق کو بھلا کیا نام دوں
تو ہی بتلا اس تعلق کو بھلا کیا نام دوں ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
پھر سہی حشر کے دن کر لیں گے
پھر سہی حشر کے دن کر لیں گے بات کرنی ہے خدا سے تیری پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
وہ اٹھا رہے ہیں چلمن وہ دکھا رہے ہیں صورت
وہ اٹھا رہے ہیں چلمن وہ دکھا رہے ہیں صورت کہیں ہوش اڑ نہ جائیں کہیں دل مچل نہ جائے پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
روزمرہ کا یہ ہے کھیل نصیرؔ ان کے لئے
روزمرہ کا یہ ہے کھیل نصیرؔ ان کے لئے ایک دو باتوں میں دو چار کو اپنا کرنا پیر نصیر الدین نصیر گیلانی
Rubai
آتا نہیں کچھ بھی راس مستی کے سوا
آتا نہیں کچھ بھی راس مستی کے سوا ہو جاتا ہے دل اداس مستی کے سوا پلوا کے بٹھا دیا کسی نے مجھ کو اب
یہ بھیڑ یہ دھوم تا قیامت رکھے
یہ بھیڑ یہ دھوم تا قیامت رکھے تا دیر جہاں میں با کرامت رکھے ملتی ہے یہاں سکوں کی جنس نایاب اللہ ترے در کو
اے شیخ یہ زہد خود نما کچھ بھی نہیں
اے شیخ یہ زہد خود نما کچھ بھی نہیں یہ مکر یہ شیوۂ ریا کچھ بھی نہیں دانوں کا گھماؤ زیادہ کم جنبش لب تسبیح
اس کوچے میں کب کسے گزر ملتا ہے
اس کوچے میں کب کسے گزر ملتا ہے ہر گام پہ اک سیل خطر ملتا ہے جب دانش دنیوی کے بجھتے ہیں چراغ تب جا
سجادہ و بیعت و قبا کا جھگڑا
سجادہ و بیعت و قبا کا جھگڑا تقسیم مریدین و انا کا جھگڑا زوروں پے ہے آج کل کی درگاہوں میں نذرانہ وصولی و دعا
لگتے ہیں جو دولت کی ہوا کے محتاج
لگتے ہیں جو دولت کی ہوا کے محتاج رہتے ہیں جو زائر کی عطا کے محتاج کرتا ہے دعا کی التجا ایسوں سے جو لوگ
محروم کشاد باب عالی نہ گیا
محروم کشاد باب عالی نہ گیا مایوس کبھی کوئی سوالی نہ گیا کیا مہر علی کا در ہے اللہ اللہ اس در پہ جو آ
جلووں سے ہے یوں جسم مقدس معمور
جلووں سے ہے یوں جسم مقدس معمور جیسے ہو تجلیات باری کا ظہور دیکھو تو ذرا صورت شاہ بغداد چہرے پہ برس رہا ہے اللہ
فریاد رس و عقدہ کشا کوئی نہیں
فریاد رس و عقدہ کشا کوئی نہیں مشکل میں کسی کا آسرا کوئی نہیں بے چارہ نواز و دستگیر و داتا اللہ تعالیٰ کے سوا
انساں ادبی کا گر سکھا دیتے ہیں
انساں ادبی کا گر سکھا دیتے ہیں الجھے کوئی تو مسکرا دیتے ہیں ہیں اسوۂ مصطفیٰ کے وارث وہ لوگ جو گالیاں سن کر بھی
فانی ہے یہ ارباب طرب کی کرسی
فانی ہے یہ ارباب طرب کی کرسی دائم قائم ہے صرف رب کی کرسی جسٹس ہو گورنر کہ وزیر اعظم دیمک کی لپیٹ میں ہے
پیری اسے کہیے کہ مقاصد گیری
پیری اسے کہیے کہ مقاصد گیری خود ہو جو ہوا و حرص کی زنجیری تقلید میں ان کی ہاتھ اٹھاؤ گویا مرہون دعا ہے آج
Qita
Bait
Manajat
Naat-O-Manqabat
کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں اور دنیا میں حاجت روا کون ہے
کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں اور دنیا میں حاجت روا کون ہے سب کا داتا ہے تو سب کو دیتا ہے تو
مجھ پہ بھی چشم کرم اے مرے آقا کرنا
مجھ پہ بھی چشم کرم اے مرے آقا کرنا حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو میں خود کہ قد آدم آئینہ ہوں تیرا اپنا سراپا دیکھنے
کون ہو مسندنشیں خاک مدینہ چھوڑ کر
کون ہو مسند نشیں خاک مدینہ چھوڑ کر خلد دیکھے کون کوئے شاہ بطحیٰ چھوڑ کر دل کی بستی اور ارمانوں کی دنیا چھوڑ کر
شاہان جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں
شاہان جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں کیا بزم میں طیبہ کے گدا آئے ہوئے ہیں ہنگامۂ محشر میں کہاں حبس کا خدشہ گیسو شہ