Qalandar Bakhsh Jurat
- 1748-1809
- Dehli, India
Introduction
Ghazal
جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں بزم میں تکتے ہیں منہ اس کا کھڑے اُور وُہ
الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا
الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا قسمت میں تُو ہے عذاب سہنا دھیان اس کہ میں ہم کو سر بہ زانو آنکھیں کیے بند
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تُجھ کو کیا
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تُجھ کو کیا کیا برا مان کہ کہتا ہے بھلا تُجھ کو کیا سر اٹھانا تجھے بالیں سے
غم رو رو کہ کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
غم رو رو کہ کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا تُو ہنس کہ وُہ بولے ہے میاں فکر کر اپنا رونے سے تیرے کیا
عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کے عشق باہم لگا چھڑایا
عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کے عشق باہم لگا چھڑایا الٰہی چھٹ جائیں اس کی نبضیں ملاپ جس نے مرا چھڑایا نہ بیٹھے آرام
شب وصَل دیکھی جُو خواب میں تُو سحر کو سینہ فگار تھا
شب وصَل دیکھی جُو خواب میں تُو سحر کو سینہ فگار تھا یہی بس خیال تھا دم بہ دم کے ابھی تُو پاس وہ یار
سچ تُو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
سچ تُو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا سوچ ہے ہر دم یہی ہم کو کے ہم نے کیا کیا وُہ گیا
رات کیا کیا مُجھے ملال نہ تھا
رات کیا کیا مُجھے ملال نہ تھا خواب کا تُو کہیں خیال نہ تھا آج کیا جانے کیا ہوا ہم کو کل بھی ایسا تُو
رات جب تک میرے پہلو میں وُہ دل دار نہ تھا
رات جب تک میرے پہلو میں وُہ دل دار نہ تھا دِل کو مُجھ سے مّجھے کچھ دل سے سروکار نہ تھا گرد اس کوچے
دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا
دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا چتونوں میں ہے بھرا سارے زمانے کا مزا کس مزے سے ہے عیاں دزدیٔ دل ہے ظالم
دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا
دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا شمع ساں محفل جاناں ہی میں جل جاؤں گا دور سے بھی اسے دیکھوں تُو
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا
در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا یا وُہ راتوں کو سدا بھیس بدل کر آنا ہمدمو یہ کوئی رونا ہے کے
Sher
احوال کیا بیاں میں کروں ہائے اے طبیب
احوال کیا بیاں میں کروں ہائے اے طبیب ہے درد اس جگہ کہ جہاں کا نہیں علاج جرأت قلندر بخش
ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت
ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا جرأت قلندر بخش
آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے
آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا جرأت قلندر بخش
کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت
کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا جرأت قلندر بخش
چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی جرأت قلندر بخش
سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر جرأت قلندر بخش
اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی
اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی دو مال کی زکوٰۃ کہ دولت زیادہ ہو جرأت قلندر بخش
رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم
رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا جرأت قلندر بخش
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا ہمارا شعر بھی مشہور ہوگا جرأت قلندر بخش
بال ہیں بکھرے بینڈ ہیں ٹوٹے کان میں ٹیڑھا بالا ہے
بال ہیں بکھرے بینڈ ہیں ٹوٹے کان میں ٹیڑھا بالا ہے جرأتؔ ہم پہچان گئے ہیں دال میں کالا کالا ہے جرأت قلندر بخش
اس شخص نے کل ہاتوں ہی ہاتوں میں فلک پر
اس شخص نے کل ہاتوں ہی ہاتوں میں فلک پر سو بار چڑھایا مجھے سو بار اتارا جرأت قلندر بخش
جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ
جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ ایسا اسے کیا سمجھے ہو تم منہ کا نوالا جرأت قلندر بخش