Qamar Jalalvi
- 1887-4 October 1968
- Jalali, Aligarh, British India
Introduction
ان کی غزلوں کے درجزیل مجموعے ہیں.
رشک-ای-قمر.
اوج-ای-قمر.
تجلیات-ای-قمر.
غم-ای-جاودان.
آے ہیں وہ مزار پے.
دبا کے چل دیے سب قبر میں.
Ghazal
یہ روز حشر کا اور شکوہ وفا کے لئے
یہ روز حشر کا اور شکوہ وفا کے لئے خدا کے سامنے تو چپ رہو خدا کے لئے الٰہی وقت بدل دے مری قضا کے
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم
دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے مے خانے کو ہم لے کے اپنے ساتھ اک خاموش
کریں گے شکوہ جور و جفا دل کھول کر اپنا
کریں گے شکوہ جور و جفا دل کھول کر اپنا کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا مکاں دیکھا کئے
تم اپنی یاد سے کہہ دو نہ جائے چھوڑ کے دل
تم اپنی یاد سے کہہ دو نہ جائے چھوڑ کے دل کہ درد ہجر نہ رکھ دے کہیں مروڑ کے دل اب آپ کے مرے
چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں
چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں اک تماشہ بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں دم نکل جائے گا حسرت سے نہ
آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی
آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی پوری کیا موسیٰ
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں صیاد میں اسیر کہوں کس سے حال دل صرف ایک
کسی صورت سحر نہیں ہوتی
کسی صورت سحر نہیں ہوتی رات ادھر سے ادھر نہیں ہوتی خوف صیاد سے نہ برق کا ڈر بات یہ اپنے گھر نہیں ہوتی ایک
لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے
لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے کسی محفل میں بھی ایسے چلن
کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے
کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے
اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہوگا
اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہوگا وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہوگا بھلا اہل جنوں سے
اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا
اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا کیا جانے گریباں ہوگا کہاں دامن سے بڑا ویرانے کا واعظ نہ سنے گا ساقی کی
Qita
Sher
روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں
روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں قمر جلالوی
مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ قمر جلالوی
ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمر
ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں قمر جلالوی
بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر
بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے قمر جلالوی
نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے
نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی قمر جلالوی
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے قمر جلالوی
نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی
نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی قمر جلالوی
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں قمر جلالوی
قمر اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی
قمرؔ اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی کہ سنا کئے ستارے مرا رات بھر فسانہ قمر جلالوی
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر قمر جلالوی
میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے
میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو
تیرے قربان قمر منہ سر گلزار نہ کھول
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار قمر جلالوی