Rais Amrohvi
- 12 September 1914 -22 September 1988
- Amroha, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Rais Amrohvi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں
جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں سنا ہر بار میرا کلمۂ صدق مگر ہر بار جھٹلایا گیا ہوں کبھی ماضی
کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے
کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے جو شہر کہ آباد تھے ویراں نظر آئے بکھری ہوئی روندی ہوئی لاشوں سے گزر کر ٹوٹے ہوئے
ہجر سے وصل اس قدر بھاری
ہجر سے وصل اس قدر بھاری صبح سے دل پہ ہول ہے طاری اپنی افتاد طبع کیا کہیے وہی دیرینہ دل کی بیماری ان کے
اے دل شریک طائفہ وجد و حال ہو
اے دل شریک طائفہ وجد و حال ہو پیارے یہ عیب ہے تو بہ حد کمال ہو شبلیؔ و بایزیدؔ و گرونانکؔ و کبیرؔ ہنگامۂ
کوئے جاناں مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو
کوئے جاناں مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو عین ممکن ہے کہ پھر تیری طرف آنا نہ ہو عین ممکن ہے کہ دہراؤں حدیث
تم اے رئیس اب نہ اگر اور مگر کرو
تم اے رئیس! اب نہ اگر اور مگر کرو کچھ دیر اپنے ساتھ بھی پیارے! بسر کرو ممکن ہے ذات کا اسی لمحے میں ہو
میں جو تنہا رہ طلب میں چلا
میں جو تنہا رہ طلب میں چلا میرا سایہ مرے عقب میں چلا صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی میں اکیلا سواد شب میں
مہجور ہر انجمن ہیں ہم لوگ
مہجور ہر انجمن ہیں ہم لوگ اپنے میں جلا وطن ہیں ہم لوگ جو سبزہ و برگ سے ہو محروم وہ شبنم بے کفن ہیں
یہ فقط شورش ہوا تو نہیں
یہ فقط شورش ہوا تو نہیں کوئی مجھ کو پکارتا تو نہیں بول اے اختر غنودہ صبح کوئی راتوں کو جاگتا تو نہیں سن کہ
سیاہ ہے دل گیتی سیاہ تر ہو جائے
سیاہ ہے دل گیتی سیاہ تر ہو جائے خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے کچھ اس روش سے چلے باد برگ
ترا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خوشبو
ترا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خوشبو وہ خواب جن میں مرا پیکر خیال ہے تو ستا رہی ہیں مجھے بچپنے کی کچھ
دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں
دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں میں اک فقیر ہوں شہر سبا سے آیا ہوں جہان نو کی طلب اور اس خرابے میں سواد
Nazm
Sher
آدمی کی تلاش میں ہے خدا
آدمی کی تلاش میں ہے خدا آدمی کو خدا نہیں ملتا رئیس امروہوی
یہ کربلا ہے نذر بلا ہم ہوئے کہ تم
یہ کربلا ہے نذر بلا ہم ہوئے کہ تم ناموس قافلہ پہ فدا ہم ہوئے کہ تم رئیس امروہوی
صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے رئیس امروہوی
چند بے نام و نشاں قبروں کا
چند بے نام و نشاں قبروں کا میں عزا دار ہوں یا ہے مرا دل رئیس امروہوی
ابھی سے شکوہ پست و بلند ہم سفرو
ابھی سے شکوہ پست و بلند ہم سفرو ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے رئیس امروہوی
دل سے مت سرسری گزر کہ رئیس
دل سے مت سرسری گزر کہ رئیسؔ یہ زمیں آسماں سے آتی ہے رئیس امروہوی
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم رئیس امروہوی
پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے
پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا رئیس امروہوی