Ravish Siddiqi
- 10 July 1909-23 Jan 1971
- Shahjahanpur, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Ravish Siddiqi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
عہد و پیماں کر کے پیمانے کے ساتھ
عہد و پیماں کر کے پیمانے کے ساتھ عمر گزری تیرے میخانے کے ساتھ زندگی بھی جی چرا کر رہ گئی کون مرتا تیرے دیوانے
ہم میکشوں کے قدموں پر اکثر
ہم میکشوں کے قدموں پر اکثر جھک جھک گئے ہیں محراب و منبر شرمائے گا اب تا حشر طوفاں ٹوٹی ہوئی اک کشتی ڈبو کر
بادہ گل کو سب اندوہ ربا کہتے ہیں
بادہ گل کو سب اندوہ ربا کہتے ہیں اشک گل رنگ میں ڈھل جائے تو کیا کہتے ہیں فرصت بزم بھی معلوم کہ ارباب نظر
ایک لغزش میں در پیر مغاں تک پہنچے
ایک لغزش میں در پیر مغاں تک پہنچے ہم بھٹکتے تھے کہاں اور کہاں تک پہنچے لطف تو جب ہے کہ اے محرم حسن گفتار
کہنے کو سب فسانہ غیب و شہود تھا
کہنے کو سب فسانہ غیب و شہود تھا در پردہ استعارہ شوق و نمود تھا سمجھا نہ بوالہوس کسے کہتے ہیں انتظار ناداں اسیر کشمکش
سوال عشق پر تا حشر چپ رہنا پڑا مجھ کو
سوال عشق پر تا حشر چپ رہنا پڑا مجھ کو ہر اک الزام کو ہنستے ہوئے سہنا پڑا مجھ کو کبھی مغرور طوفانوں کو بھی
نکہت زلف کو ہم رشتہ جاں کہتا ہوں
نکہت زلف کو ہم رشتہ جاں کہتا ہوں ہوش آتا ہے تو خواب گزراں کہتا ہوں درد کو دولت صاحب نظراں کہتا ہوں غم کو
خلوتی خیال کو ہوش میں کوئی لائے کیوں
خلوتی خیال کو ہوش میں کوئی لائے کیوں شعلہ طور ہی سہی ہم سے نظر ملائے کیوں ہم سے کچھ اور ہی کہا ان سے
محبت کی جہاں بانی کے دن ہیں
محبت کی جہاں بانی کے دن ہیں زمیں پر خلد سامانی کے دن ہیں یہ ہے دور جلال ابن آدم نہ سلطانی نہ خاقانی کے
چلا ہے لے کے مجھے ذوق جستجو میرا
چلا ہے لے کے مجھے ذوق جستجو میرا اب انتظار کر اے جان آرزو میرا میں بن سکا نہ تیرا یہ بجا سہی لیکن کسی
انتظار مدام باقی ہے
انتظار مدام باقی ہے صبح باقی ہے شام باقی ہے پوچھنا ہم سے ہائے ساقی کا کیا کوئی تشنہ کام باقی ہے اب محبت کہاں
پشیماں ہیں ترک محبت کے بعد
پشیماں ہیں ترک محبت کے بعد بڑھیں الجھنیں اور فرصت کے بعد ابھی تو قیامت کا ہے آسرا خدا جانے کیا ہو قیامت کے بعد
Nazm
Sher
اب اس سے کیا غرض یہ حرم ہے کہ دیر ہے
اب اس سے کیا غرض یہ حرم ہے کہ دیر ہے بیٹھے ہیں ہم تو سایہ دیوار دیکھ کر روش صدیقی
نقاب شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں
نقاب شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں اشارے ہم ترے اے شمع تنہائی سمجھتے ہیں روش صدیقی
جو راہ اہل خرد کے لیے ہے لا محدود
جو راہ اہل خرد کے لیے ہے لا محدود جنون عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے روش صدیقی
خون دل صرف کر رہا ہوں روش
خون دل صرف کر رہا ہوں روشؔ خوب سے نقش خوب تر کے لیے روش صدیقی
ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں
ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں کسے فراق کہوں اور کسے وصال کہوں روش صدیقی
وہ شخص اپنی جگہ ہے مرقع تہذیب
وہ شخص اپنی جگہ ہے مرقع تہذیب یہ اور بات ہے کہ قاتل اسی کا نام بھی ہے روش صدیقی
دل گوارا نہیں کرتا ہے شکست امید
دل گوارا نہیں کرتا ہے شکست امید ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے روش صدیقی
عشق خود اپنی جگہ مظہر انوار خدا
عشق خود اپنی جگہ مظہر انوار خدا عقل اس سوچ میں گم کس کو خدا کہتے ہیں روش صدیقی
وہ کہاں درد جو دل میں ترے محدود رہا
وہ کہاں درد جو دل میں ترے محدود رہا درد وہ ہے جو دل کون و مکاں تک پہنچے روش صدیقی