Shakeb Jalali
- 1 October 1934-12 November 1966
- Jalal, Aligarh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس
مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا ٹھہرو خیالی اصنام مرے ٹھہرو ٹھہرو
غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں
غم دل حیطۂ تحریر میں آتا ہی نہیں جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں اوس کی بوندوں میں بکھرا ہوا منظر جیسے
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا
خواب گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
خواب گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا آمد صبح شب اندام پہ رونا آیا دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا بے کسئ
کیا جانیے منزل ہے کہاں جاتے ہیں کس سمت (ردیف)
کیا جانیے منزل ہے کہاں جاتے ہیں کس سمت بھٹکی ہوئی اس بھیڑ میں سب سوچ رہے ہیں بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں ابھی
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا
خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے
خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
دوستی کا فریب ہی کھائیں
دوستی کا فریب ہی کھائیں آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں ہم کو آمادۂ سفر نہ کرو راستے پر خطر نہ ہو جائیں ہم اگر رہروی
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا پیروں میں زنجیریں ڈالیں ہاتھوں میں کشکول دیا اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے
دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے
دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے کوئی موسم ہو مرا زخم ہرا رہتا ہے شب کو ہوگا افق جاں سے ترا حسن
Nazm
لرزتا دیپ
دور شب کا سرد ہات آسماں کے خیمۂ زنگار کی آخری قندیل گل کرنے بڑھا اور کومل چاندنی ایک در بستہ گھروندے سے پرے مضمحل
Sher
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے شکیب جلالی
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں شکیب جلالی
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی شکیب جلالی
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت شکیب جلالی
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے شکیب جلالی
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ شکیب جلالی
وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر
وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر آج کے دوست کل کے بیگانے شکیب جلالی
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں شکیب جلالی
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے شکیب جلالی
ایک اپنا دیا جلانے کو
ایک اپنا دیا جلانے کو تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں شکیب جلالی
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا شکیب جلالی
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر شکیب جلالی