Siraj Aurangabadi
- 1715 - 1763
- Aurangabad, India
Introduction
Ghazal
تیری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا
تیری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا خرد کہ شہر کہ سب وحشیوں کوں رام کیا اگرچہ تیر پلک نے کیا تھا دِل برما ولے
دِل میں جب آ کہ عشق نے ترے محل کیا
دِل میں جب آ کہ عشق نے ترے محل کیا سب دست و پائے عقل کوں یک پل میں شل کیا اِس زلف پر شکن
تُجھ زلف کی شکن ہے مانند دام گویا
تُجھ زلف کی شکن ہے مانند دام گویا یا صبح پر ہماری آئی ہے شام گویا ہیں صاد اس کی آنکھیں اور قد الف کہ
جاناں پہ جی نثار ہوا کیا بجا ہوا
جاناں پہ جی نثار ہوا کیا بجا ہوا اس راہ میں غبار ہوا کیا بجا ہوا مدت سے راز عشق میرے پہ عیاں نہ تھا
دِل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا
دِل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا ہے خاک اس قدم کی شاید وطن ہمارا اے دوستان جانی دِل سیں کرو توجہ تا
رشتے میں تیری زلف کہ ہے جان ہمارا
رشتے میں تیری زلف کہ ہے جان ہمارا بے جا نہیں سنبل کہ اوپر مان ہمارا سرمایۂ آشفتہ دلی جمع ہوا ہے آ دیکھ صنم
جُو تُجھے دیکھ کہ مبہوت ہوا
جُو تُجھے دیکھ کہ مبہوت ہوا خُون دِل اس کو سدا قوت ہوا جُو موا دیکھ تیرے عارض کوں شاخ گّل کا اسے تابوت ہوا
جس نے تُجھ حُسن پر نگاہ کیا
جس نے تُجھ حُسن پر نگاہ کیا نُور خورشید فرش راہ کیا حق نے اپنے کرم ستی مج کوں ملک خوبی کا پادشاہ کیا مشق
جُو کچھ کے تم سیں مُجھے بولنا تھا بول چکا
جُو کچھ کے تم سیں مُجھے بولنا تھا بول چکا بیان عشق کہ طومار کوں میں کھول چکا ازل سیں مُجھ کوں دیا درد صانع
ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں تیرا مبارک مقام ہے گا
ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں تیرا مبارک مقام ہے گا پلک کہ پٹ ہم نے کھول دیکھے تُو عین ماہ تمام ہے گا ارے شراب
ترے ابرو کی عجب بیت ہے حالی اے شوخ
ترے ابرو کی عجب بیت ہے حالی اے شوخ جس میں ہے مطلب دیوان ہلالی اے شوخ گوہر اشک کوں ہے حلقہ بگوشی کا خیال
اپنا جمال مُجھ کوں دکھایا رسول آج
اپنا جمال مُجھ کوں دکھایا رسول آج عاجز کی التماس کوں کرنا قبول آج اے مہرباں طبیب شتابی علاج کر ترے برہ کہ درد سیں
Sher
دو رنگی خوب نہیں یک رنگ ہو جا
دو رنگی خوب نہیں یک رنگ ہو جا سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا سراج اورنگ آبادی
کہتے ہیں تری زلف کوں دیکھ اہل شریعت
کہتے ہیں تری زلف کوں دیکھ اہل شریعت قربان ہے اس کفر پر ایمان ہمارا سراج اورنگ آبادی
بولتا ہوں جو وو بلاتا ہے
بولتا ہوں جو وو بلاتا ہے تن کے پنجرے میں اس کا طوطا ہوں سراج اورنگ آبادی
ہجر کی راتوں میں لازم ہے بیان زلف یار
ہجر کی راتوں میں لازم ہے بیان زلف یار نیند تو جاتی رہی ہے قصہ خوانی کیجئے سراج اورنگ آبادی
وقت ہے اب نماز مغرب کا
وقت ہے اب نماز مغرب کا چاند رخ لب شفق ہے گیسو شام سراج اورنگ آبادی
عشق کا نام گرچہ ہے مشہور
عشق کا نام گرچہ ہے مشہور میں تعجب میں ہوں کہ کیا شے ہے سراج اورنگ آبادی
کبھی تم موم ہو جاتے ہو جب میں گرم ہوتا ہوں
کبھی تم موم ہو جاتے ہو جب میں گرم ہوتا ہوں کبھی میں سرد ہوتا ہوں تو تم بھڑکاؤ کرتے ہو سراج اورنگ آبادی
کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا
کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا دل کا مکاں کہاں یہی دل دار کی طرف سراج اورنگ آبادی
مکتب عشق کا معلم ہوں
مکتب عشق کا معلم ہوں کیوں نہ ہوئے درس یار کی تکرار سراج اورنگ آبادی
آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے
آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے خوب استاد ہو تم جان کے لے جانے میں سراج اورنگ آبادی
تری ابرو ہے محراب محبت
تری ابرو ہے محراب محبت نماز عشق میرے پر ہوئی فرض سراج اورنگ آبادی
نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا سراج اورنگ آبادی