Wazir Agha
- 18 May 1922-8 September 2010
- Sargodha, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Wazir Agha was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے
ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے پھر یوں ہوا کہ لوگ ہمیں تولنے لگے آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت ایسا نہ
ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو
ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو جو ہو سکے یہ تماشا نہ تو دکھا مجھ کو کبھی تو کوئی فلک سے اتر
سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا
سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا پھر ایک سپنا مجھے دکھایا تو میں نے جانا بجز ہوا اب رکے گا کوئی
وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے
وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے آنا ہوا تو اب وہ سر عام آئیں گے سوچا نہ تھا کہ ابر سیہ
بادل چھٹے تو رات کا ہر زخم وا ہوا
بادل چھٹے تو رات کا ہر زخم وا ہوا آنسو رکے تو آنکھ میں محشر بپا ہوا سوکھی زمیں پہ بکھری ہوئی چند پتیاں کچھ
وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا
وہ پرندہ ہے کہاں شب کو چہکنے والا رات بھر نافۂ گل بن کے مہکنے والا لکۂ ابر تھا بس دیکھنے آیا تھا مجھے کوئی
آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے
آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے خاک پر مہکا ہوا چھوٹا سا گھر میرے لیے لفظ کی چھاگل جو چہکے خاکداں آباد ہو
نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے
نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے بس اک آنسو کے دانے پر بسر اوقات کرتا ہے شجر کے تن میں گہرا
سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے
سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے خزاں کو کچھ نہ ملا بے لباس کر کے مجھے تھی دشت خواب میں اک تیری جستجو
عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا رکنا بھی کیا
عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا رکنا بھی کیا کرمک شب ہوں مرا جلنا بھی کیا بجھنا بھی کیا اک نظر اس چشم
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا میں رہ گزر تھا مجھے روند کر زمانہ گیا نقاب اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق پگھلتی
پتھروں کی قید میں اک آب جو
پتھروں کی قید میں اک آب جو بے کراں نیلا سمندر چار سو ریزہ ریزہ ہو گیا ہوں میں اگر چور وہ بھی ہو چکا
Nazm
کہانی
عجب دن تھے وہ جھاڑیاں آگ کے جھنڈ کائی زدہ تال جن کے کنارے ہزاروں برس سے کھڑے جنڈ اور ون کے ڈھانچے پھلائی کے
بندھن
درخت دن رات کانپتے ہیں پرند کتنے ڈرے ہوئے ہیں فلک پہ تارے زمیں پہ جگنو گھروں کے اندر چھپے خزانے کٹے پھٹے سب بدن
اک تنہا بے برگ شجر
کون مجھے دکھ دے سکتا ہے دکھ تو میرے اندر کی کشت ویراں کا اک تنا بے برگ شجر ہے رت کی نازک لانبی پوریں
ریزہ ریزہ کر جاتا ہے
لمحوں کے ریزوں کی ہلکی بارش میں سب کتنے خوش خوش پھرتے ہیں ان خوش خوش پھرنے والوں کو یہ کون بتائے کیسے نظر نہ
آمد
کبھی خشک موسم میں پروا جو چلتی تو بنجر پہاڑوں گھنے گرد آلود شہروں سے کترا کے ہم تک پہنچتی ہمیں تند یادوں کے گرداب
مسافر چلتے رہتے ہیں
کبوتر مقبروں پر رات دن دن رات رہتے ہیں مسافر چلتے رہتے ہیں کبوتر دودھ ایسے پر سیہ دیوار کی جالی سے آتی دھوپ کی
ہتک
آنکھ ہنسی پھر کالی کلوٹی رات ہنسی پھر رات کا پنچھی پھڑ پھڑ کرتا میرے اوپر منڈلایا اور ننگے مست پہاڑ نے یک دم آنکھ
آویزش
آج پھر اس سے ملاقات ہوئی باغ کے مغربی گوشے میں جھکے نیم کے چھتنار تلے ایک بد رنگ سی چادر پہ وہ بیٹھا تھا
ہوا کہتی رہی آؤ
ہوا کہتی رہی آؤ چلو اس شاخ کو چھو لیں ادھر اس پیڑ کے پتوں میں چھپ کر تالیاں پیٹیں گریں اٹھیں لڑھک کر نہر
مڈ وائف
آنے والے ننھے منے سب خوابوں سے کہتی ہے وہ آ جاؤ اور آ کر دیکھو کتنے لوگ تمہاری خاطر جانے کب سے جاگ رہے
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
لو رات کی بات تمام ہوئی اب دن کی باتیں کرتے ہیں سب خواب تماشے دھول ہوئے اور جگنو تارے دیپ سبھی پرکاش کے پھیلے
نشر گاہ
فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا پر نہ سوچا کہاں سے چلا تھا کہاں آ کے ٹھہرا میں کس منزل بے نشاں کی
Sher
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم یہ رستہ دیر سے سونا پڑا ہے وزیر آغا
منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی
منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی ہر چند تیری یاد مرے آس پاس تھی وزیر آغا
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے وزیر آغا
یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی
یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی تھوڑی سی مرے شہر کو بھی آب و ہوا دے وزیر آغا
عمر بھر اس نے بے وفائی کی
عمر بھر اس نے بے وفائی کی عمر سے بھی وہ باوفا نہ رہا وزیر آغا
کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا
کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا آکاش بے چراغ زمیں بے لباس تھی وزیر آغا
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا تجھے وزیر آغا
تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا
تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا وزیر آغا
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا میں رہ گزر تھا مجھے روند کر زمانہ گیا وزیر آغا
کرنا پڑے گا اپنے ہی سائے میں اب قیام
کرنا پڑے گا اپنے ہی سائے میں اب قیام چاروں طرف ہے دھوپ کا صحرا بچھا ہوا وزیر آغا
قسمت ہی میں روشنی نہیں تھی
قسمت ہی میں روشنی نہیں تھی بادل تو کبھی کا چھٹ رہا تھا وزیر آغا
وہ اپنی عمر کو پہلے پرو لیتا ہے ڈوری میں
وہ اپنی عمر کو پہلے پرو لیتا ہے ڈوری میں پھر اس کے بعد گنتی عمر کی دن رات کرتا ہے وزیر آغا
Article
ثقافت ادب اور جمہوریت
ثقافت یعنی کلچر اور فطرت یعنی نیچرکی آویزش اور انسلاک ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ثقافت کا سلسلہ آج سے محض چند ہزار سال پہلے شروع
کلچر کا مسئلہ
پچھلے بیس برس میں کلچر کے مسئلہ پر ہمارے ہاں بہت سے اصحاب نے اظہارخیال کیا ہے اورکبھی کبھی تونوبت تلخ وترش تبادلہ خیالات تک
حقیقت اور فکشن
حقیقت کیا ہے؟ اورفکشن کیا ہے؟ ان سوالات پرانسان ہمیشہ سے غور کرتا آیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’حقیقت‘‘ وہ ہے جس
غزل اور جدید اردو غزل
آج سے کم وبیش ۳۳ برس قبل جب میں نے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ لکھی تواس میں ایک پورا باب غزل کے مزاج کو دریافت
منعی اور تناظر
فن کا طرہ امتیاز ہے۔۔۔ قوس! اور غیر فن کا۔۔۔ لکیر! اور قوس اور لکیر کا یہی فرق شعر کو نثر سے جدا بھی کرتا
حسرت موہانی کا کاروبار عشق
داغؔ اورحسرتؔ کے عشق کا فرق زیادہ تر محبوب کے سلسلے میں سامنے آتا ہے۔ داغؔ کا محبوب طوائف ہے لہٰذا محبت کی ساری داستان
تخلیقی عمل اور اس کی ساخت
ہرتخلیق کار جب وہ تحقیقی عمل میں مبتلا ہوتا ہے تواپنی طبع اور مزاج کے مطابق بعض رسوم یا Rituals سے گزرتا ہے۔ مثلاً ایک
عصمت چغتائی کے نسوانی کردار
عصمت چغتائی کے بیشتر نسوانی کرداروں کے پس منظر میں ایک ایسی ’’عورت‘‘ موجود ہے جو گھر کی مشین میں محض ایک بے نام سا
ادراک حسن کا مسئلہ
مصوری کے کسی حسین شاہکارسے لطف اندوز ہونا ہو تولازم ہے کہ اسے ’’موزوں فاصلے‘‘ سے دیکھا جائے کیونکہ اگر فاصلہ زیادہ ہوا توتصویر کے
ولی کی غزل
ولیؔ کی غزل کا امتیازی وصف بت پرستی اور سراپا نگاری کا وہ رجحان ہے جسے بعض نقادوں نے ولیؔ کے رجحان جمال پرستی کا
آشوب آگہی
انسان کے ہاں آگہی کی ابتدا کب ہوئی؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب مہیا کرنا مشکل ہے۔ خودعلم الانسان بھی قیاسیات سے آگے نہیں