Yagana Changezi
- 1884-1956
- Patna, Bihar, British India.
Introduction
1946 میں، سجاد زہیر نے یگانہ کو راضی کیا کہ وہ ہندوستان کی پبلشنگ ہاؤس کمیونسٹ پارٹی، قومی دارال اشاعت کے ذریعہ اپنا کلیات شائع کریں. لیکن، ایک ذرائع کے مطابق، “یہ تالیف اتنی خطرناک ثابت ہوئی کہ ہم اسے ایک بڑا المیہ سمجھ سکتے ہیں. ان کی اس کلیات میں بہت سارے شعر شامل کیے گئے اور بہت سے شعروں کو درست کیا گیا”. 2003 میں، پاکستانی مصنف مشفیق خواجہ نے یگانہ کے کام کا ایک مجموعہ کلیات-ای-یگانہ.شائع کیا، اس میں نظموں کے چار مجموعے تھے. نشتر-یاس، ترانہ، آیت-ای-وجدانی، اور گنجنہ. اس مجموعے میں یگانہ کے غالب شکن اور دیگر نثر جات کے کام بھی شامل ہیں.
یگانہ کے ادبی کام مشتمل ہیں.
سن 1914 میں نشتر-ای-یاس.
ترانہ 1933 میں.
1927 میں آیت-ای-وجدانی.
1948 میں گنجنہ.
غالب شکن.
Ghazal
حسن پر فرعون کی پھبتی کہی
حسن پر فرعون کی پھبتی کہی ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی دامن یوسف ہی بھڑکاتا رہا عشق اور ترک ادب اچھی کہی کون سمجھائے
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے بے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
مزہ گناہ کا جب تھا کہ باوضو کرتے
مزہ گناہ کا جب تھا کہ با وضو کرتے بتوں کو سجدہ بھی کرتے تو قبلہ رو کرتے کبھی نہ پرورش نخل آرزو کرتے نمو
قفس کو جانتے ہیں یاس آشیاں اپنا
قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا مکان اپنا زمین اپنی آسماں اپنا ہوائے تند میں ٹھہرا نہ آشیاں اپنا چراغ جل نہ سکا زیر
محروم شہادت کی ہے کچھ تجھ کو خبر بھی
محروم شہادت کی ہے کچھ تجھ کو خبر بھی او دشمن جاں دیکھ ذرا پھر کے ادھر بھی ہے جان کے ساتھ اور اک ایمان
سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے
سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے اس اجڑے مکاں میں بسر کرنے والے گلے پر چھری کیوں نہیں پھیر دیتے اسیروں کو بے بال
یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے
یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے کچھ تو ہو اس نزع کی مشکل میں آسانی مجھے اف بھی کر سکتا نہیں اب
قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا
قیامت ہے شب وعدہ کا اتنا مختصر ہونا فلک کا شام سے دست و گریبان سحر ہونا شب تاریک نے پہلو دبایا روز روشن کا
چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا لگا کے آگ مرے گھر سے میہماں نکلا دل اپنا خاک تھا پھر خاک کو جلانا کیا
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا ہے تنک مزاج صیاد کچھ اپنا بس نہیں ہے
آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر
آپ میں کیونکر رہے کوئی یہ ساماں دیکھ کر شمع عصمت کو بھری محفل میں عریاں دیکھ کر دل کو بہلاتے ہو کیا کیا آرزوئے
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش
Rubai
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو یا جیتے ہی جی مردوں سے ناتا جوڑو کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو بے کار بڑھنا
چھٹ بھیوں کی شاعری کا یہ زور یہ شور
چھٹ بھیوں کی شاعری کا یہ زور یہ شور ایسوں کو کہے گا کون میدان کا چور شاعر ہیں یا مشاعروں کے ٹہیے سن پائی
چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا
چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا اے شمع تری حیات فانی کیا ہے جھونکا کھانے سنبھلتے
بے درد ہو کیا جانو مصیبت کے مزے
بے درد ہو کیا جانو مصیبت کے مزے ہیں رنج کے دم قدم سے راحت کے مزے دوزخ کی ہوا تو پہلے کھا لو صاحب
ارمان نکلنے کا مزہ ہے کچھ اور
ارمان نکلنے کا مزہ ہے کچھ اور اور رشک سے جلنے کا مزہ ہے کچھ اور ہاں یاد ہے دوست سے لپٹنا لیکن دشمن کو
ہاں اے دل ایذا طلب آرام نہ لے
ہاں اے دل ایذا طلب آرام نہ لے بدنام نہ ہو مفت کا الزام نہ لے ہاتھ آنا سکے پھول تو کانٹے ہی سہی ناکام
درد اپنا کچھ اور ہے دوا ہے کچھ اور
درد اپنا کچھ اور ہے دوا ہے کچھ اور ٹوٹے ہوئے دل کا آسرا ہے کچھ اور ایسے ویسے خدا تو بہتیرے ہیں میں بندہ
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک مشکل ہے کچھ آساں نہیں سیدھا مسلک سچ بول کے کیا حسین بننا ہے تجھے اتنا سچ
موجوں سے لپٹ کے پار اترنے والے
موجوں سے لپٹ کے پار اترنے والے طوفان بلا سے نہیں ڈرنے والے کچھ بس نہ چلا تو جان پر کھیل گئے کیا چال چلے
کیوں مطلب ہستی و عدم کھل جاتا
کیوں مطلب ہستی و عدم کھل جاتا کیوں راز طلسم کیف و کم کھل جاتا کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے آنکھیں
یوسف کو اس انجمن میں کیا ڈھونڈھتا ہے
یوسف کو اس انجمن میں کیا ڈھونڈھتا ہے ہنگامۂ ما و من میں کیا ڈھونڈھتا ہے نیرنگ تماشا ہے حجاب معنی تصویر کے پیرہن میں
واللہ یہ زندگی بھی ہے قابل دید
واللہ یہ زندگی بھی ہے قابل دید اک طرفہ طلسم دید جس کی نہ شنید منزل کی دھن میں جھومتا جاتا ہوں پیچھے تو اجل
Sher
نہ سنگ میل نہ نقش قدم نہ بانگ جرس
نہ سنگ میل نہ نقش قدم نہ بانگ جرس بھٹک نہ جائیں مسافر عدم کی منزل کے یگانہ چنگیزی
دیر و حرم بھی ڈھ گئے جب دل نہیں رہا
دیر و حرم بھی ڈھ گئے جب دل نہیں رہا سب دیکھتے ہی دیکھتے ویرانہ ہو گیا یگانہ چنگیزی
باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آ
باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آ ڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہے یگانہ چنگیزی
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا یگانہ چنگیزی
جھانکنے تاکنے کا وقت گیا
جھانکنے تاکنے کا وقت گیا اب وہ ہم ہیں نہ وہ زمانہ ہے یگانہ چنگیزی
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجئے یگانہ چنگیزی
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا یگانہ چنگیزی
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا یگانہ چنگیزی
ساقی میں دیکھتا ہوں زمیں آسماں کا فرق
ساقی میں دیکھتا ہوں زمیں آسماں کا فرق عرش بریں میں اور ترے آستانے میں یگانہ چنگیزی
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاسؔ
ہاتھ الجھا ہے گریباں میں تو گھبراؤ نہ یاسؔ بیڑیاں کیونکر کٹیں زنداں کا در کیونکر کھلا یگانہ چنگیزی
عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے
عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے زمانے کے بلند و پست کا ہموار ہو جانا یگانہ چنگیزی
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے وہم کی کیا دوا کرے کوئی یگانہ چنگیزی