Zeb Ghauri
- 1928-1985
- Kanpur, Uttar pradesh, British India
Introduction
Ghazal
تو پشیماں نہ ہو میں شاد ہوں ناشاد نہیں
تو پشیماں نہ ہو میں شاد ہوں ناشاد نہیں زندگی تیرا کرم ہے تری بیداد نہیں وہ صنم خانۂ دل ہو کہ گزر گاہ خیال
جھکے ہوئے پیڑوں کے تنوں پر چھاپ ہے چنچل دھارے کی
جھکے ہوئے پیڑوں کے تنوں پر چھاپ ہے چنچل دھارے کی ہولے ہولے ڈول رہی ہے گھاس ندی کے کنارے کی کسی ہوئی مردنگ سا
بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا
بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا لہولہان پڑا تھا برہنہ تن اس کا نہ یہ زمین ہوئی اس کے خون سے گل نار
ڈھلا نہ سنگ کے پیکر میں یار کس کا تھا
ڈھلا نہ سنگ کے پیکر میں یار کس کا تھا وہ ایک عکس چٹانوں کے پار کس کا تھا زمیں پڑی رہی بے ساز و
اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا
اجڑی ہوئی بستی کی صبح و شام ہی کیا خاک اڑانے والوں کا انجام ہی کیا پاس سے ہو کر یوں ہی گزر جاتی ہے
سورج نے اک نظر مرے زخموں پہ ڈال کے
سورج نے اک نظر مرے زخموں پہ ڈال کے دیکھا ہے مجھ کو کھڑکی سے پھر سر نکال کے رکھتے ہی پاؤں گھومتی چکراتی راہ
خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ
خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ عکس نایاب مرے دیدۂ حیران میں آ ہے شرارہ ہوس آمادۂ پرواز بہت یم ظلمات بلاتا ہے
غار کے منہ سے یہ چٹان ہٹانے کے لیے
غار کے منہ سے یہ چٹان ہٹانے کے لیے کوئی نیکی بھی نہیں یاد دلانے کے لیے اک نگاہ غلط انداز کا امکاں نکلا کچھ
کھلی تھی آنکھ سمندر کی موج خواب تھا وہ
کھلی تھی آنکھ سمندر کی موج خواب تھا وہ کہیں پتہ نہ تھا اس کا کہ نقش آب تھا وہ الٹ رہی تھیں ہوائیں ورق
پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا
پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا دل مگر کچھ اور ہی عالم میں تھا کھویا ہوا دل کی صورت گھٹ رہی ہے
اک پیلی چمکیلی چڑیا کالی آنکھ نشیلی سی
اک پیلی چمکیلی چڑیا کالی آنکھ نشیلی سی بیٹھی ہے دریا کے کنارے میری طرح اکیلی سی جب میں نشیب رنگ و بو میں اترا
میرا نشاں بھی ڈھونڈھ غبار ماہ و اختر میں
میرا نشاں بھی ڈھونڈھ غبار ماہ و اختر میں کچھ منظر میں نے بھی بنائے بنائے ہیں منظر میں پوچھو تو زخموں کا حوالہ دینا
Sher
چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا
چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں زیب غوری
نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں
نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں تو کوئی اور مرے رو بہ رو نکلتا ہے زیب غوری
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے زیب
دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا
دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا تو بھی میری تنہائی میں شامل ہو زیب غوری
ایک جھونکا ہوا کا آیا زیبؔ
ایک جھونکا ہوا کا آیا زیبؔ اور پھر میں غبار بھی نہ رہا زیب غوری
اس کی راہوں میں پڑا میں بھی ہوں کب سے لیکن
اس کی راہوں میں پڑا میں بھی ہوں کب سے لیکن بھول جاتا ہوں اسے یاد دلانے کے لیے زیب غوری
اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے
اب مجھ سے یہ دنیا مرا سر مانگ رہی ہے کمبخت مرے آگے سوالی ہی رہے گی زیب غوری
زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے
زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے جاگتے جاگتے درد رہا کرتا ہے مرے سر میں زیب غوری
کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں
کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں دھوپ روکے ہے مرا چاہنے والا کیسا زیب غوری
کہیں پتہ نہ لگا پھر وجود کا میرے
کہیں پتہ نہ لگا پھر وجود کا میرے اٹھا کے لے گئی دنیا شکار کس کا تھا زیب غوری
اور بھی گہری ہو جاتی ہے اس کی سرگوشی
اور بھی گہری ہو جاتی ہے اس کی سرگوشی مجھ سے کسی کی آنکھوں کی جب باتیں کرتا ہے زیب غوری
جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار
جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ زیب غوری