Zehra Nigah
- 14 May 1935
- Hyderabad, Pakistan
Introduction
ان کے مشہور کام درجزیل ہیں.
شام کا پہلا تارہ
ورق.
Ghazal
بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے جانے والوں کا جانا یاد آ جاتا ہے بات چیت میں جس کی روانی مثل ہوئی ایک نام
نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا
نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں ہم نے جس رستے پر اس کو چھوڑا ہے پھول ابھی
برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو
برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو محسوس ہوا کہ بات کی ہے اور بات بھی وہ جو دل نشیں
یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا
یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا جبر دل بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا
بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں
بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے دیکھو
چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لئے
چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لئے سنور رہی ہے تری بزم برہمی کے لئے نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں تجھے
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی دست طلب
کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں وہ ستم گر
جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو
جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو اب محفل یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو پھولوں سے ہوا بھی کبھی گھبرائی ہے
رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا
رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا منزل پہ بھی آ جاتے نقشہ بھی بدل جاتا اس جھوٹ کی دلدل سے باہر بھی نکل
بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں
بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں ٹوٹا جال سمندر پر پھیلائے ہوئے ہوں وحشت کرنے سے بھی دل بیزار ہوا ہے دشت و سمندر
Nazm
سنا ہے
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا درختوں کی گھنی
میں بچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں میں بچ گئی ماں ترے کچے لہو کی مہندی مرے پور پور میں رچ گئی ماں میں بچ گئی ماں گر
شام کا پہلا تارا
جب جھونکا تیز ہواؤں کا کچھ سوچ کے دھیمے گزرا تھا جب تپتے سورج کا چہرہ اودی چادر میں لپٹا تھا جب سوکھی مٹی کا
وہ کتاب
مری زندگی کی لکھی ہوئی مرے طاق دل پہ سجی ہوئی وہ کتاب اب بھی ہے منتظر جسے میں کبھی نہیں پڑھ سکی وہ تمام
متاع الفاظ
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو مری بات سنو ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے کسی رستے پر اتفاقا کبھی بھولے سے کہیں مل
ایک لڑکی
کیسا سخت طوفاں تھا کتنی تیز بارش تھی اور میں ایسے موسم میں جانے کیوں بھٹکتی تھی وہ سڑک کے اس جانب روشنی کے کھمبے
ڈاکو
کل رات مرا بیٹا مرے گھر چہرے پہ منڈھے خاکی کپڑا بندوق اٹھائے آ پہنچا نو عمری کی سرخی سے رچی اس کی آنکھیں میں
مٹھو میاں
مٹھو میاں چپ رہو ٹیوں ٹیوں مت کرو لال مرچ کھاؤ گے اپنی کہے جاؤ گے میری بات بھی سنو کل سبق پڑھایا تھا آج
انصاف
میں اس چھوٹے سے کمرے میں آزاد بھی ہوں اور قید بھی ہوں اس کمرے میں اک کھڑکی ہے جو چھت کے برابر اونچی ہے
ایک سچی اماں کی کہانی
مرے بچے یہ کہتے ہیں تم آتی ہو تو گھر میں رونقیں خوشبوئیں آتی ہیں یہ جنت جو ملی ہے سب انہیں قدموں کی برکت
شام کا پہلا تارا 2
میری اس شام کے تارے سے ملاقات بہت گہری تھی وہ مرا ہم دم دیرینہ تھا میں بہت چھوٹی تھی جب ماں نے بتایا تھا
سمجھوتہ
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں کسی بھی جھوٹ کا
Sher
اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے زہرا نگاہ
نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں تجھے بھی بھول گئے ہم تری خوشی کے لئے زہرا نگاہ
کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال
کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے زہرا نگاہ
دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے
دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے اپنے اپنے خانوں میں بٹ جاتے ہیں زہرا نگاہ
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا زہرا نگاہ
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں زہرا نگاہ
چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا
چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا زہرا نگاہ
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی زہرا نگاہ
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا زہرا نگاہ
ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی
ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی تم جو آئے تو منزلیں لائے زہرا نگاہ
دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے
دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے زہرا نگاہ
بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں
بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے زہرا نگاہ
Children Stories
گڑیا کی شادی
علی زے ایک بہت پیاری بچی ہے۔ اس کے پاس ایک گڑیا ہے۔ دیکھنے کے لائق۔ علی زے اپنی گڑیا سے بہت پیار کرتی ہے۔