Zehra Nigah
- 14 May 1935
- Hyderabad, Pakistan
Introduction
ان کے مشہور کام درجزیل ہیں.
شام کا پہلا تارہ
ورق.
Ghazal
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے
یہ حکم ہے کہ اندھیرے کو روشنی سمجھو
یہ حکم ہے کہ اندھیرے کو روشنی سمجھو ملے نشیب تو کوہ و دمن کی بات کرو نہیں ہے مے نہ سہی چشم التفات تو
یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
یہ اداسی یہ پھیلتے سائے ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو کی تمنا تو اشک بھر آئے گل ہی
اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا
اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا سارہ آرائش کا ساماں میز پر سوتا
رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا
رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا ایک چہرہ کہ آنکھوں میں ٹھہرا سا تھا بے چراغی سے تیری مرے شہر دل وادیٔ شعر
دیر تک روشنی رہی کل رات
دیر تک روشنی رہی کل رات میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات ایک مدت کے بعد دھند چھٹی دل نے اپنی کہی سنی کل
رونقیں اب بھی کواڑوں میں چھپی لگتی ہیں
رونقیں اب بھی کواڑوں میں چھپی لگتی ہیں محفلیں اب بھی اسی طرح سجی لگتی ہیں روشنی اب بھی درازوں سے امڈ آتی ہے کھڑکیاں
حرف حرف گوندھے تھے طرز مشکبو کی تھی
حرف حرف گوندھے تھے طرز مشکبو کی تھی تم سے بات کرنے کی کیسی آرزو کی تھی ساتھ ساتھ چلنے کی کس قدر تمنا تھی
لب پر خموشیوں کو سجائے نظر چرائے
لب پر خموشیوں کو سجائے نظر چرائے جو اہل دل میں بیٹھے ہیں چپ چاپ سر جھکائے کہہ دو کوئی صبا سے ادھر آج کل
اب تک شریک محفل اغیار کون ہے
اب تک شریک محفل اغیار کون ہے ہم بے وفا ہوئے تو خطاوار کون ہے یاں سب کو مل گئے ہیں سہارے بقدر شوق تم
خوش جو آئے تھے پشیمان گئے
خوش جو آئے تھے پشیمان گئے اے تغافل تجھے پہچان گئے خوب ہے صاحب محفل کی ادا کوئی بولا تو برا مان گئے کوئی دھڑکن
Nazm
آج کی بات
آج کی بات نئی بات نہیں ہے ایسی جب کبھی دل سے کوئی گزرا ہے یاد آئی ہے صرف دل ہی نے نہیں گود میں
الف اور ب کے نام
جاناں کیا یہ ہو سکتا ہے آج کی شام کہیں نہیں جائیں شور مچانے والے فیتے آوازوں سے بھرے توے سب تھوڑی دیر کو چپ
شہر کے ایک کشادہ گھر میں
شہر کے ایک کشادہ گھر میں اپنے اپنے کام سنبھالے میں اور ایک مری تنہائی ہم دونوں مل کر رہتے ہیں باتیں کرتے روتے ہنستے
بلاوا
چلو اس کوہ پر اب ہم بھی چڑھ جائیں جہاں پر جا کے پھر کوئی بھی واپس نہیں آتا سنا ہے اک ندائے اجنبی باہوں
آنگن
در دیوار دریچے آنگن دہلیزیں دالان اور کمرے سارے روپ یہ کتنے نازک سوچو تو مٹی کے کھلونے میرے لیے یہ کنج عبادت میرے لیے
ایک پھول سا بچہ
ایک دن تھکا ماندہ ایک شام بے معنی ایک رات حیراں سی میرے ساتھ یہ تینوں میرے گھر میں رہتے ہیں ایک دوسرے سے کم
قصہ گل بادشاہ کا
نام میرا ہے گل بادشاہ عمر میری ہے تیرہ برس اور کہانی میری عمر کی طرح سے منتشر منتشر مختصر مختصر میری بے نام بے
اب تو کچھ ایسا لگتا ہے
اب تو کچھ ایسا لگتا ہے سارا جگ مجھ سے چھوٹا ہے آنکھیں بھی مری بوجھل بوجھل شانوں پر بھی کچھ رکھا ہے کاتب وقت
کل رات ڈھلے
کل رات ڈھلے یہ سوچا میں نے میں اپنے خزانے صاف کر لوں کس کس کا ہے قرض مجھ پہ واجب اس کا بھی ذرا
ایک پرانی کہانی
کسی شہر میں اک کفن چور آیا جو راتوں کو قبروں میں سوراخ کر کے تن کشتگاں سے کفن کھینچ لیتا آخر کار پکڑا گیا
ماضی اور حال
ماضی دو بچے اپنے کمرے سے تاروں والے کپڑے پہنے میرے کمرے میں آتے ہیں مجھ سے لپٹ کر سو جاتے ہیں اور میری بے
گل چاندنی
کل شام یاد آیا مجھے ایسے کہ جیسے خواب تھا کونے میں آنگن کے مرے گل چاندنی کا پیڑا تھا میں ساری ساری دوپہر سائے
Sher
جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو
جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو اب محفل یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو زہرا نگاہ
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا زہرا نگاہ
یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
یہ اداسی یہ پھیلتے سائے ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے زہرا نگاہ
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے زہرا نگاہ
دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار
دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے زہرا نگاہ
صلح جس سے رہی میری تا زندگی
صلح جس سے رہی میری تا زندگی اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا زہرا نگاہ
دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے
دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے دیکھو ان کے منہ پر تالے اب بھی ہیں زہرا نگاہ
لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج
لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو گئی زہرا نگاہ
غم اپنے ہی اشکوں کا خریدا ہوا ہے
غم اپنے ہی اشکوں کا خریدا ہوا ہے دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے دیکھو زہرا نگاہ
اب بھی کچھ لوگ سناتے ہیں سنائے ہوئے شعر
اب بھی کچھ لوگ سناتے ہیں سنائے ہوئے شعر باتیں اب بھی تری ذہنوں میں بسی لگتی ہیں زہرا نگاہ
تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت
تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا زہرا نگاہ
کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے زہرا نگاہ