چہرے تمام دھندلے نظر آ رہے ہیں کیوں
کیوں خواب رتجگوں کی حویلی میں دب گئے
ہے کل کی بات انگلی پکڑ کر کسی کی میں
میلے میں گھومتا تھا کھلونوں کے واسطے
جتنے ورق لکھے تھے مری زندگی نے سب
آندھی کے ایک جھونکے میں بکھرے ہوئے ہیں سب
میں چاہتا ہوں پھر سے سمیٹوں یہ زندگی
بچے تمام پاس کھڑے ہیں بجھے بجھے
شوخی نہ جانے کیا ہوئی رنگت کہاں گئی
جیسے کتاب چھوڑ کے جاتے ہوئے ورق
جیسے کہ بھولنے لگے بچہ کوئی سبق
جیسے جبیں کو چھونے لگے موت کا عرق
جیسے چراغ نیند کی آغوش کی طرف
بڑھنے لگے اندھیرے کی زلفیں بکھیر کر
بھولے ہوئے ہیں ہونٹ ہنسی کا پتہ تلک
دروازہ دل کا بند ہوا چاہتا ہے اب
کیا سوچنا کہ پھول سے بچوں کا ساتھ ہے
اب میں ہوں اسپتال کا بستر ہے رات ہے
منور رانا