آنکھ تو ان پڑھ ہے اور نادان ہے
دل کی خواہش ایک ہی انسان ہے
اس لئے سب آگے پیچھے ہیں مرے
تجھ سے جو تھوڑی بہت پہچان ہے
ہم کھڑے ہیں دل ہتھیلی پر لئے
حسن والوں پر ہی اس کا دھیان ہے
تیرے قدموں کی ضیافت کے لئے
میں نے چوکھٹ پر رکھا گلدان ہے
پاس اک گز بھی خوشی کا ہے نہیں
اور غم کا پورا پورا تھان ہے
حکم رب کا جب تلک ہوتا نہیں
زندگی کی موت خود نگران ہے
کیا ملی شہرت کہ سب ملنے لگے
وہ بھی جن سے دور کی پہچان ہے
دل میں ہے حرص و ہوس کی بو بھری
اور پھولوں سے سجا دالان ہے
غم بھی اترا کر خوشی سے کہہ اٹھا
یہ عطاؔ تو روز کا مہمان ہے
عامر عطا