ابھی قبول ہے مجھ کو اداس ہو جانا ابھی نصیب ہے قدموں میں ان کے سو جانا کسی کتاب سے کیسے کوئی نکلتا ہے کسی کتاب سے ٹوٹا گلاب تو جانا تری شبیہ میں دیکھا جہاں میں جو دیکھا تری مثال سے جانا جہاں میں جو جانا زمانہ ایک میں تحلیل کر رہا ہے مگر ہمیشہ میں نے سفید و سیہ کو دو جانا یہ کس کے اشک پڑے ہیں یہ قبر کس کی ہے یہ کون روک رہا ہے کسی کا کھو جانا یہ کتنی مرتبہ کتنوں کے ساتھ ہوتا ہے نکل کر ایک سفر پر سفر کا ہو جانا بلا کے شعر تھے عامرؔ بلا کا شور بھی تھا بلا کا شہر تھا جس نے نہ آپ کو جانا