Iztirab

Iztirab

اس کا دل تو اچھا دل تھا

ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی 
کبھی نہ دیکھا اس کی آنکھوں میں چمکے کیسے موتی 
کبھی نہ سوچا تم سے ایسی باتیں وہ کیوں کہتی ہے 
کبھی نہ سمجھا ملتے ہو تو گھبرائی کیوں رہتی ہے 
کیسے اس رخسار کی رنگت سرسوں جیسی زرد ہوئی 
جب تک ملی نہیں تھی تم سے وہ ایسی تنہا تو نہ تھی 
مل کر آنکھ بہانے سے وہ کب تک آنسو روکے گی 
اس کے ہونٹوں کی لرزش بھی تم نے کبھی نہیں دیکھی 
کیوں ایسی سنسان سڑک پر اسے اکیلا چھوڑ دیا 
اس کا دل تو اچھا دل تھا جس کو تم نے یوں توڑ دیا 
وہ کچھ نادم وہ کچھ حیراں رستہ ڈھونڈا کرتی تھی 
ڈھلتی دھوپ میں اپنا بے کل سایہ دیکھ کے ہنستی تھی 
.آخر سورج ڈوب گیا اور راہ میں اس کو شام ہوئی

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *