Iztirab

Iztirab

انقلابی عورت

رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال 
اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال 
پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے ہیں دانت 
جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال 
دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال 
ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی آیا نہ تھا خیال 
اس نے سوچا 
گر پھر سے مل جائے جوانی 
جس کو لکھتے ہیں دیوانی 
اور مستانی 
جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی 
وہی جوانی 
اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی 
بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی 
دل نے کہا 
کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا 
کہاں جوانی 
یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے 
یہ خیال بھی دیر سے آیا 
بس اب گھر جا 
بڑھیا نے کب اس کی مانی 
حالانکہ اب وہ ہے نانی 
ظاہر ہے اب اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی 
آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے 
رات کے پنچھی بول رہے تھے 
اور کہتے تھے 
یہ شاید اس کی عادت ہے 
.یا شاید اس کی فطرت ہے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *