زمین نور و نغمہ پر
خدائے رنگ کے بکھرے ہوئے جلووں کو پہچانیں
اسے سمجھیں۔ اسے جانیں
یقیں آ جائے تو مانیں
یہاں تو کہکشاں مٹھی میں ہے
لعل و جواہر پیرہن پر ہیں شعاعوں کے کئی دھبے ہر اک اجلے بدن پر ہیں
یہاں رنگیں مشینیں دائروں میں جھک کے ملتی ہیں
کسی سے روٹھ جاتے ہیں کسی کے ساتھ چلتے ہیں
یہاں کے سامری گویائی لے لیتے ہیں
اور پلکوں پہ حیرت کے دریچے کھول دیتے ہیں
یہاں ہر نفع کے خانے میں پوشیدہ خسارہ ہے
فسوں کم ہو تو پھر باہر کا ہر منظر ہمارا ہے
جسے ہم چاند سمجھے ہیں بھٹکتا سا ستارہ ہے
یہی سورج سے جیتا ہے یہی جگنو سے ہارا ہے
یہ فطرت کا اشارہ ہے
چلو تنویر شاہ! اٹھو
غلام محمد قاصر