اپنے دل میں ڈر ہو تو یہ بادل کس کو لبھا سکتے ہیں
اپنے دل میں ڈر ہو تو سب رتیں ڈراؤنی لگتی ہیں اور اپنی طرف ہی گردن
جھک جاتی ہے
یہ تو اپنا حوصلہ تھا
اتنے اندیشوں میں بھی
نظریں اپنی جانب نہیں اٹھیں اور اس گھنگھور گھنے کہرے میں جا ڈوبی ہیں
اور اب میری ساری دنیا اس کہرے میں نہائی ہوئی ہریاول کا حصہ ہے
میری خوشیاں بھی اور ڈر بھی
اور اسی رستے پر میں نے لوہے کے حلقوں میں
اک قیدی کو دیکھا
آہن چہرہ سپاہی کی جرسی کا رگ اس قیدی کے رخ پر تھا
ہر اندیشہ تو اک کنڈی ہے جو دل کو اپنی جانب کھینچ کے رکھتی ہے اور وہ قیدی بھی
کھچا ہوا تھا اپنے دل کے خوف کی جانب جس کی کوئی رت نہیں ہوتی
میں بھی اپنے اندیشوں کا قیدی ہوں لیکن اس قیدی کے اندیشے تو
اک میرے سوا سب کے ہیں
اک وہی اپنے اپنے دکھ کی کنڈی
جس کے کھچاؤ سے اک اک گردن اپنی جانب جھکی ہوئی ہے
ایسے میں اب کون گھٹاؤں بھری اس صبح بہاراں کو دیکھے گا
جو ان بور لدے اندیشوں پر یوں جھکی ہوئی ہے آموں کے باغوں میں
مری روح کے سامنے
مجید امجد