اچھی سے اچھی آب و ہوا کے بغیر بھی زندہ ہیں کتنے لوگ دوا کے بغیر بھی سانسوں کا کاروبار بدن کی ضرورتیں سب کچھ تو چل رہا ہے دعا کے بغیر بھی برسوں سے اس مکان میں رہتے ہیں چند لوگ اک دوسرے کے ساتھ وفا کے بغیر بھی اب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں رہا مرنے لگے ہیں لوگ قضا کے بغیر بھی ہم بے قصور لوگ بھی دلچسپ لوگ ہیں شرمندہ ہو رہے ہیں خطا کے بغیر بھی چارہ گری بتائے اگر کچھ علاج ہے دل ٹوٹنے لگے ہیں صدا کے بغیر بھی