وہ زندگی کو ڈراتے ہیں
موت کو رشوت دیتے ہیں
اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں
وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں
اور امید رکھتے ہیں
ہم خود کو ہلاک کر لیں گے
وہ چڑیا گھر میں
شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں
اور جب ہم وہاں سیر کرنے جاتے ہیں
اس دن وہ شیر کا راتب بند کر دیتے ہیں
جب چاند ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوتا
وہ ہمیں ایک جزیرے کی سیر کو بلاتے ہیں
جہاں نہ مارے جانے کی ضمانت کا کاغذ
وہ کشتی میں ادھر ادھر کر دیتے ہیں
اگر انہیں معلوم ہو جائے
وہ اچھے قاتل نہیں
تو وہ کانپنے لگیں
اور ان کی نوکریاں چھن جائیں
وہ ہمارے مارے جانے کا خواب دیکھتے ہیں
اور تعبیر کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں
وہ ہمارے نام کی قبر کھودتے ہیں
اور اس میں لوٹ کا مال چھپا دیتے ہیں
اگر انہیں معلوم بھی ہو جائے
کہ ہمیں کیسے مارا جا سکتا ہے
پھر بھی وہ ہمیں نہیں مار سکتے
افضال احمد سید