میں اکثر دیکھنے جاتا تھا اس کو جس کی ماں مرتی
اور اپنے دل میں کہتا تھا یہ کیسا شخص؟ ہے اب بھی
جیے جاتا ہے آخر کون اس کے گھر میں ہے جس کے
لیے یہ سختیاں سہتا ہے تکلیفیں اٹھاتا ہے
تھکن دن کی سمیٹے شب کو گھر جانے پہ کون اس کے
لیے دہلیز پر بیٹھا۔۔۔ دعا کی مشعلیں دل میں
جلائے۔۔۔ دیدۂ بے خواب کی ہر راہ دروازے
کی درزوں سے نکالے گا۔۔۔ خدا کی مہربانی اک
حقیقت ہی سہی کچھ قہر آلودہ بھی ہے۔۔۔ جو اس
کی نافرمانیاں کرتے ہیں ان کے واسطے اس نے
دہکتی آگ بھی تیار رکھی ہے۔۔۔ دل کافر
میں اس کی مہربانی اور رحمت کا تصور بھی
جب آیا مامتا کے لفظ کی صورت میں آیا ہے
مری ویران آنکھوں نے پھر ایسا وقت بھی دیکھا
کہ سورج جل رہا تھا روشنی منظر سے غائب تھی
خدا زندہ تھا لیکن اس کی رحمت سر سے غائب تھی
انہی آنکھوں میں میرے خیریت سے لوٹ آنے پر
نہ تھا اشک مسرت بھی۔۔۔ کہ میری راہ تکنا جن
کی بینائی کا مصرف تھا۔۔۔ وہ لب دو چار دن پہلے
مرے ماتھے پہ ہو کر ثبت جو کہتے تھے'' تم جاؤ
تمہاری نوکری کی بات ہے بیٹے! میں اچھی ہوں
مجھے اب جان کا خطرہ نہیں ہے اور اگر کچھ ہو
گیا تو ہم تمہیں فوراً بلا لیں گے چلے جاؤ''
(اگر مر جاؤں میں تو صبر کر لینا۔۔۔ خدا حافظ)
مگر یہ بات قاصرؔ ان لبوں سے کب سنی میں نے
اسے معلوم تھا شاید کہ مائیں مر نہیں سکتیں
دل اولاد میں اک یاد بن کر زندہ رہتی ہیں
بلایا تو گیا مجھ کو مگر وہ لب؟ کہاں وہ لب؟
مرے فاقہ زدہ بچپن کو نیندوں سے گریزاں، پا
کے جو پریوں کے افسانے سناتے تھے تو میں خوابوں
میں خود کو ان کے دسترخوانوں پر موجود پاتا تھا
سکت باقی نہیں ہے ان لبوں میں آج اتنی بھی
کہ میری خاطر اک حرف دعا کا بوجھ اٹھا لیتے
مجھے جو دیکھنے آتے ہیں کہتے ہیں میں زندہ ہوں
میں کھاتا ہوں کہ یہ بھی زندگی کی اک ضرورت ہے
مگر ہر ذائقے میں ایک تلخی کا اضافہ ہے
کسی دیوار کا سایہ ہو یا ہو پیڑ کی چھاؤں
مرا جسم برہنہ چھیدتی رہتی ہیں کرنیں اب
ہوا وہ ہاتھ غائب جو کہ میری ذات پر ہوتے
ہوئے ہر وار کو بڑھ بڑھ کے خود پر روک لیتا تھا
دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں دعائیں اس کی خاطر ہیں
میں گویا ہوں کہ میری سب صدائیں اس کی خاطر ہیں
محبت اس کی خاطر ہے وفائیں اس کی خاطر ہیں
کہ میری ابتدائیں، انتہائیں اس کی خاطر ہیں
غلام محمد قاصر