Iztirab

Iztirab

ایک زن خانہ بدوش

تم نے دیکھی ہے کبھی ایک زن خانہ بدوش 
جس کے خیمے سے پرے رات کی تاریکی میں 
گرسنہ بھیڑیے غراتے ہیں 
دور سے آتی ہے جب اس کی لہو کی خوشبو 
سنسناتی ہیں درندوں کی ہنسی 
اور دانتوں میں کسک ہوتی ہے 
کہ کریں اس کا بدن صد پارہ 
اپنے خیمے میں سمٹ کر عورت 
رات آنکھوں میں بتا دیتی ہے 
کبھی کرتی ہے الاؤ روشن 
بھیڑیے دور بھگانے کے لیے 
کبھی کرتی ہے خیال 
تیز نکیلا جو اوزار کہیں مل جائے 
تو بنا لے ہتھیار 
اس کے خیمے میں بھلا کیا ہوگا 
ٹوٹے پھوٹے ہوئے برتن دو چار 
دل کے بہلانے کو شاید یہ خیال آتے ہیں 
اس کو معلوم ہے شاید نہ سحر ہو پائے 
سوتے بچوں پہ جمائے نظریں 
کان آہٹ پہ دھرے بیٹھی ہے 
ہاں دھیان اس کا جو بٹ جائے کبھی 
گنگناتی ہے کوئی بسرا گیت 
.کسی بنجارے کا

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *