ندی کے لرزتے ہوئے پانیوں پر
تھرکتی ہوئی شوخ کرنوں نے چنگاریاں گھول دی ہیں
تھکی دھوپ نے آ کے لہروں کی پھیلی ہوئی ننگی بانہوں پہ اپنی لٹیں کھول دی ہیں
یہ جوئے رواں ہے
کہ بہتے ہوئے پھول ہیں جن کی خوشبوئیں گیتوں کی سسکاریاں ہیں
یہ پگھلے ہوئے زرد تانبے کی چادر پہ الجھی ہوئی سلوٹیں ہیں
کہ زنجیر ہائے رواں ہیں
بس اک شور طوفاں
کنارا نہ ساحل
نگاہوں کی حد تک
سلاسل سلاسل
کہ جن کو اٹھائے ہوئے ڈولتی پنکھڑیوں کے سفینے بہے جا رہے ہیں
بہے جا رہے ہیں
کہیں دور ان گھور اندھیروں میں جو فاصلوں کی ردائیں لپیٹے کھڑے ہیں
جہاں پر ابد کا کنارا ہے اور اک وہ گاؤں
وہ گنے کے کیاروں پہ آتی ہوئی ڈاک گاڑی کے بھورے دھوئیں کی چھچھلتی سی چھاؤں
مجید امجد