بیتاب سے بیتاب تری تاب لے آئے جینا پڑا ایسوں کو بھی جو جی نہیں پائے باتیں وہی باتیں وہ نہ بولی ہوئی باتیں اس تیزی سے لگتی ہیں کہ اللہ بچائے دکھتی رہی پھیلی ہوئی گردوں کی سیاہی کتنے ہی ستارے مری آنکھوں نے گنائے تعریف بھی ایسی ہمیں کرنی نہیں آئی الفاظ بھی ایسے متعدد ہی بنائے یک لخت انڈیلے گئے ہم ہوش میں ہر بار جاتے ہوئے خوابوں کو کبھی دیکھ نہ پائے جانو گے تو جانم تمہیں جانے نہیں دیں گے بہتر ہے ان اوہام کو جانے دیا جائے آواز سے پیوستہ اک انداز ہے عامرؔ انداز کا اندازہ مگر کون لگائے