Iztirab

Iztirab

تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے

تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے 
روز اک صورت نئی ہے غور کرنے کے لیے 
جب کوئی بنتا ہے لاکھوں ہستیوں کو میٹ کر 
صبح تاروں کو دباتی ہے ابھرنے کے لیے 
حامل اسرار فطرت ہوں گدا بھی ہوں تو کیا 
بات یہ کافی ہے مجھ کو فخر کرنے کے لیے 
روح کو چمکا خودی کو توڑ کر زینے بنا 
دو یہ تدبیریں ہیں دنیا میں ابھرنے کے لیے 
غور سے دیکھا نظام دہر تو ثابت ہوا 
آدمی پیدا ہوا ہے کام کرنے کے لیے 
صبح اٹھ کر آنسوؤں سے خون کے روتا ہوں میں 
دل کے نقشے میں وفا کا رنگ بھرنے کے لیے 
گوہر مقصود خود ملتا ہے ہمت شرط ہے 
مضطرب رہتا ہے ہر موتی ابھرنے کے لیے 
آنکھ شرمائی ہوئی ہے بال پیشانی پہ ہیں 
آئینہ خانے میں جاتے ہیں سنورنے کے لیے 
کہہ دو دنیا کے حوادث سے نہ چھیڑیں اس طرح 
.جوشؔ ہم تیار ہی بیٹھے ہیں مرنے کے لیے

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *