آسمانوں کے تلے سبز و خنک گوشوں میں
کوئی ہوگا جسے اک ساعت راحت مل جائے
یہ گھڑی تیرے مقدر میں نہیں ہے نہ سہی
آسمانوں کے تلے تلخ و سیہ راہوں پر
اتنے غم بکھرے پڑے ہیں کہ اگر تو چن لے
کوئی اک غم تری قسمت کو بدل سکتا ہے
آسمانوں کے تلے تلخ و سیہ راہوں پر
تو اگر دیکھے تو خوشیوں کی گریزاں سرحد
سوز یک غم سے شکیب غم دیگر تک ہے
زندگی قہر سہی زہر سہی کچھ بھی سہی
آسمانوں کے تلے تلخ و سیہ لمحوں میں
جرعۂ سم کے لیے عفت لب لازم ہے
اور تو ہے کہ ترے جسم کا سایہ بھی نجس
تو اگر چاہے تو ان تلخ و سیہ راہوں پر
جا بجا اتنی تڑپتی ہوئی دنیاؤں میں
اتنے غم بکھرے پڑے ہیں کہ جنہیں تیری حیات
قوت یک شب کے تقدس میں سمو سکتی ہے
کاش تو حیلۂ جاروب کے پر نوچ سکے
کاش تو سوچ سکے سوچ سکے
مجید امجد