جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کرنے
کا کفارہ بن سکتے ہیں
کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں ان کا
جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ان ویراں صحنوں تک ہے
کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت
نا صاحب اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر کر بھیک کسی کو دے کر
ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے
اور یہ قرض اب تک کس سے اور کب اترے ہیں
لاکھوں نصرت مند ہجوموں کی خنداں خنداں خونیں آنکھوں سے بھرے ہوئے
تاریخ کے چوراہوں پر
صاحب تخت خداوندوں کی کٹتی گردنیں بھی حل کر نہ سکیں یہ مسائل
اک سائل کے مسائل
اپنے اپنے عروجوں کی افتادگیوں میں ڈوب گئیں سب تہذیبیں سب فلسفے۔۔۔
تو اب یہ سب حرف زبوروں میں جو مجلد ہیں کیا حاصل ان کا۔۔۔
جب تک میرا یہ دکھ خود میرے لہو کی دھڑکتی ٹکسالوں میں ڈھل کے دعاؤں بھری اس اک
میلی جھولی میں نہ کھنکے
جو رستے کے کنارے مرے قدموں پہ بچھی ہے
مجید امجد