دسترس چھن جائے گی اور نقش پا کھو جائیں گے ہم وہاں پر بیٹھے بیٹھے ریت کے ہو جائیں گے کب سے مرنا چاہتے ہیں تجھ پہ ہم تیری قسم جان سے تو جا رہے ہیں جان مر تو جائیں گے وہ نہیں سمجھیں گے لیلیٰ کون ہے میں کون ہوں بس ذرا صحرا طرف جانا ہے پوچھو جائیں گے اک کہانی سنتے سنتے اتنا عرصہ ہو گیا اب اگر وہ دکھ گیا تو اندھے ہی ہو جائیں گے یہ جو تاروں کا فسوں ہے ٹوٹنا ہے صبح کو جب تری آنکھوں سے ہم بھی ٹوٹ کر کھو جائیں گے آپ اگر خود سے مخاطب ہیں تو عامرؔ ٹھیک ہے آپ کی باتوں کو سن کر لوگ تو سو جائیں گے