Iztirab

Iztirab

دل آزادہ رو میں وہ تمنا تھی بیاباں کی

دل آزادہ رو میں وہ تمنا تھی بیاباں کی 
قدم رکھتے ہی شق ہونے لگی دیوار زنداں کی 
خدا کی رحمتیں اے مطرب رنگیں نوا تجھ پر 
کہ ہر کانٹے میں تو نے روح دوڑا دی گلستاں کی 
یہ ثابت کر دیا تجھ کو بنا کر دست قدرت نے 
کہ ہو سکتی ہیں اتنی خوبیاں صورت میں انساں کی 
نسیم صبح ٹھنڈی سانس بھرتی ہے مزاروں پر 
اداسی منہ اندھیرے دیکھیے گور غریباں کی 
یہ عالم کیا ہے اک مجموعہ ہے ناچیز ذروں کا 
یہ دنیا کیا ہے اک ترکیب اجزائے پریشاں کی 
ہواؤں کے وہ جھونکے وہ کھلے میدان کی سردی 
وہ لہریں چاند سے رخسار پر زلف پریشاں کی 
ہماری زندگی کیا سلسلہ اک دل دھڑکنے کا 
ہماری موت کیا جنبش ہے اک جذبات پنہاں کی 
بنا دیں گی یقیں ہے جوشؔ مرد باخدا اک دن 
.تپش اندوزیاں سینے میں برق سوز پنہاں کی

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *