دیکھو یہ اس کا دیکھنا دیکھے سے آئے گا اور پھر جو دیکھ لو گے تو دیکھا نہ جائے گا یہ ایسی منزلیں ہیں کہ رستہ نہیں کوئی سامان باندھ لو گے تو رستہ بلائے گا بے دست و پا تھا شب میں تری یاد کے سبب اتنا کہ لگ رہا تھا کہ تو چھوٹ جائے گا کھو ہی گئی زبان خموشی کے درمیان صحرا میں کوئی شور بھی کب تک مچائے گا عامرؔ تجھے پتا ہی نہیں اصلیت ہے کیا لیکن یہ خواب میں بھی سفر کٹ ہی جائے گا