آنکھوں میں کوئی بس جاتا ہے
میٹھی سی ہنسی ہنس جاتا ہے
احساس کی لہریں ان تاریک جزیروں سے ٹکراتی ہیں
جہاں نغمے پنکھ سنوارتے ہیں
سنگین فصیلوں کے گنبد سے پہرے دار پکارتے ہیں
کیا کرتا ہے
دل ڈرتا ہے
دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے
ان سونی تنہا راتوں میں
دل ڈوب کے گزری باتوں میں
جب سوچتا ہے کیا دیکھتا ہے ہر سمت دھوئیں کا
بادل ہے وادی و بیاباں جل تھل ہے
ذخار سمندر سوکھے ہیں پر ہول چٹانیں پگھلی ہیں
دھرتی نے ٹوٹتے تاروں کی جلتی ہوئی لاشیں نگلی ہیں
پہنائے زماں کے سینے پر اک موج انگڑائی لیتی ہے
اس آب و گل کی دلدل میں اک چاپ سنائی دیتی ہے
اک تھرکن سی اک دھڑکن سی آفاق کی ڈھلوانوں میں کہیں
تانیں جو ہمک کر ملتی ہیں چل پڑتی ہیں رکتی ہی نہیں
ان راگنیوں کے بھنور بھنور میں صدہا صدیوں گھوم گئیں
ان قرن آلود مسافت میں لاکھ آبلے پھوٹے دیپ بجھے
اور آج کسے معلوم ضمیر ہستی کا آہنگ تپاں
کس دور کے دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں رقصاں رقصاں
اس سانس کی رو تک پہنچا ہے
اس میری میز کی جلتی ہوئی قندیل کی لو تک پہنچا ہے
کون آیا ہے کون آتا ہے کون آئے گا
انجانے من کی مورکھتا کو کیا کیا دھیان گزرتا ہے
دل ڈرتا ہے
دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے
مجید امجد