رہا ہے قافلۂ گل کا انتظار کسے
اب آئے بھی تو یہاں پائے گی بہار کسے
میں ایک سایۂ لرزاں شکستہ خوابوں کا
مرے وجود کا آئے گا اعتبار کسے
خود اپنی ذات کو اس خاکداں میں گم کر کے
وہ ڈھونڈھنے کو چلا ہے افق کے پار کسے
طیور خواب گرفت نظر میں کیا آئیں
کھلی فضا کے پرندوں پہ اختیار کسے
خود اپنے راز بھی خود سے چھپا کے پھرتے ہیں لوگ
یہاں بنائے کوئی اپنا راز دار کسے
وہ کون تھا کہ جو دل سے گزر گیا چپ چاپ
سکوت غم نے صدا دی تھی بار بار کسے
حیات کیا ہے خود اپنی ہی جستجو مخمورؔ
یہ جستجو مگر آئی ہے سازگار کسے
مخمور سعیدی