ساری دولت ترے قدموں میں پڑی لگتی ہے تو جہاں ہوتا ہے قسمت بھی گڑی لگتی ہے ایسے رویا تھا بچھڑتے ہوئے وہ شخص کبھی جیسے ساون کے مہینے میں جھڑی لگتی ہے ہم بھی اپنے کو بدل ڈالیں گے رفتہ رفتہ ابھی دنیا ہمیں جنت سے بڑی لگتی ہے خوش نما لگتے ہیں دل پر ترے زخموں کے نشاں بیچ دیوار میں جس طرح گھڑی لگتی ہے تو مرے ساتھ اگر ہے تو اندھیرا کیسا رات خود چاند ستاروں سے جڑی لگتی ہے میں رہوں یا نہ رہوں نام رہے گا میرا زندگی عمر میں کچھ مجھ سے بڑی لگتی ہے