Iztirab

Iztirab

سبو اٹھا کہ فضا سیم خام ہے ساقی

سبو اٹھا کہ فضا سیم خام ہے ساقی 
فراز کوہ پہ ماہ تمام ہے ساقی 
چنے ہوئے ہیں پیالے جھکی ہوئی بوتل 
نیا قعود نرالا قیام ہے ساقی 
بہ ناز مغچگان و بہ فیض نعرۂ ہو 
ہمائے ارض و سما زیر دام ہے ساقی 
فضا پہ نہر پرافشان تاب حور و طہور 
غنا میں شہر قصور و خیام ہے ساقی 
یہ کون شاہد مستی فروش و نغمہ نواز 
نفس کے تار پہ گرم خرام ہے ساقی 
نہ اسم و جسم نہ حرف و نفس نہ سایہ و نقل 
یہ کیا طلسم یہ کیسا مقام ہے ساقی 
رکے نہ دور کہ اب تک بہ زیر چرخ کبود 
ریا حلال ہے صہبا حرام ہے ساقی 
بنام آدم و حوا پلا کہ گرم سرود 
نسیم روضۂ دارالسلام ہے ساقی 
سبوئے قلعہ شکن کی سپر عنایت کر 
کہ تیغ دور زماں بے نیام ہے ساقی 
اگر غذائے خیال و نظر سے ہے محروم 
حیات ذہن کا ماہ صیام ہے ساقی 
تمام دولت دنیا و دیں پہ بھاری ہے 
وہ دل جو بستۂ حب انام ہے ساقی 
عجب نہیں کہ تجھے بھی پسند آئے یہ قول 
جھکے نہ دل تو عبادت حرام ہے ساقی 
صفات و ذات کے ایوان روح پرور تک 
.سبو سے فاصلۂ نیم گام ہے ساقی

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *