سبو اٹھا کہ فضا سیم خام ہے ساقی فراز کوہ پہ ماہ تمام ہے ساقی چنے ہوئے ہیں پیالے جھکی ہوئی بوتل نیا قعود نرالا قیام ہے ساقی بہ ناز مغچگان و بہ فیض نعرۂ ہو ہمائے ارض و سما زیر دام ہے ساقی فضا پہ نہر پرافشان تاب حور و طہور غنا میں شہر قصور و خیام ہے ساقی یہ کون شاہد مستی فروش و نغمہ نواز نفس کے تار پہ گرم خرام ہے ساقی نہ اسم و جسم نہ حرف و نفس نہ سایہ و نقل یہ کیا طلسم یہ کیسا مقام ہے ساقی رکے نہ دور کہ اب تک بہ زیر چرخ کبود ریا حلال ہے صہبا حرام ہے ساقی بنام آدم و حوا پلا کہ گرم سرود نسیم روضۂ دارالسلام ہے ساقی سبوئے قلعہ شکن کی سپر عنایت کر کہ تیغ دور زماں بے نیام ہے ساقی اگر غذائے خیال و نظر سے ہے محروم حیات ذہن کا ماہ صیام ہے ساقی تمام دولت دنیا و دیں پہ بھاری ہے وہ دل جو بستۂ حب انام ہے ساقی عجب نہیں کہ تجھے بھی پسند آئے یہ قول جھکے نہ دل تو عبادت حرام ہے ساقی صفات و ذات کے ایوان روح پرور تک .سبو سے فاصلۂ نیم گام ہے ساقی
جوش ملیح آبادی