صحرا پسند ہو کے سمٹنے لگا ہوں میں اندر سے لگ رہا ہے کہ بٹنے لگا ہوں میں کیا پھر کسی سفر پہ نکلنا ہے اب مجھے دیوار و در سے کیوں یہ لپٹنے لگا ہوں میں آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں کیا مجھ میں احتجاج کی طاقت نہیں رہی پیچھے کی سمت کس لیے ہٹنے لگا ہوں میں پھر ساری عمر چاند نے رکھا مرا خیال اک روز کہہ دیا تھا کہ گھٹنے لگا ہوں میں