Iztirab

Iztirab

طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی

اے دوست پرانے پہچانے 
ہم کتنی مدت بعد ملے 
اور کتنی صدیوں بعد ملی 
یہ ایک نگاہ مہر و سخا 
جو اپنی سخا سے خود پر نم 
بیٹھو تو ذرا 
بتلاؤ تو کیا 
یہ سچ ہے میرے تعاقب میں 
پھرتا ہے ہجوم سنگ زناں؟ 
کیا نیل بہت ہیں چہرے پر؟ 
کیا کاسۂ سر ہے خون سے تر؟ 
پیوند قبا دشنام بہت 
پیوست جگر الزام بہت 
یہ نظر کرم کیوں ہے پر نم؟ 
جب نکلے کوئے ملامت میں 
اک غوغا تو ہم نے بھی سنا 
طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی 
ہم آپ ہی تھے یوں خود رفتہ 
مدہوشی نے مہلت ہی نہ دی 
ہم مڑ کے نظارہ کر لیتے 
بچنے کی تو صورت خیر نہ تھی 
درماں کا ہی چارہ کر لیتے 
پل بھر بھی ہمارے کار جنوں 
.غفلت جو گوارہ کر لیتے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *