Iztirab

Iztirab

عالم برزخ

یہ تو برزخ ہے یہاں وقت کی ایجاد کہاں 
اک برس تھا کہ مہینہ ہمیں اب یاد کہاں 
وہی تپتا ہوا گردوں وہی انگارا زمیں 
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں 
شب گراں زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی 
سود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی 
زیست کرنے کی مشقت ہی ہمیں کیا کم تھی 
مستزاد اس پہ پروہت کا جنون تازہ 
سب کو مل جائے گناہوں کا یہیں خمیازہ 
!ناروا دار فضاؤں کی جھلستی ہوئی لو 
محتسب کتنے نکل آئے گھروں سے ہر سو 
تاڑتے ہیں کسی چہرہ پہ طراوت تو نہیں 
کوئی لب نم تو نہیں بشرے پہ فرحت تو نہیں 
کوچہ کوچہ میں نکالے ہوئے خونی دیدے 
گرز اٹھائے ہوئے دھمکاتے پھرا کرتے ہیں 
نوع آدم سے بہر طور ریا کے طالب 
روح بے زار ہے کیوں چھوڑ نہ جائے قالب 
زندگی اپنی اسی طور جو گزری غالبؔ
.ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *