Iztirab

Iztirab

فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو

فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو 
خاک ہونا ہے تو خاک کوئے جاناں کیوں نہ ہو 
دہر میں اے خواجہ ٹھہری جب اسیری ناگزیر 
دل اسیر حلقہ گیسوئے پیچاں کیوں نہ ہو 
زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام 
عقل والو پھر طواف کوئے جاناں کیوں نہ ہو 
جب نہیں مستوریوں میں بھی گناہوں سے نجات 
دل کھلے بندوں غریق بحر عصیاں کیوں نہ ہو 
اک نہ اک ہنگامے پر موقوف ہے جب زندگی 
مے کدے میں رند رقصاں و غزلخواں کیوں نہ ہو 
جب خوش و ناخوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ 
ہم نشیں پھر بیعت جام زر افشاں کیوں نہ ہو 
جب بشر کی دسترس سے دور ہے حبل المتیں 
دشت وحشت میں پھر اک کافر کا داماں کیوں نہ ہو 
ایک ہے جب شور جہل و بانگ حکمت کا مآل 
دل ہلاک ذوق گلبانگ پریشاں کیوں نہ ہو 
اک نہ اک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر 
آدمی محو سجود سرو خوباں کیوں نہ ہو 
اک نہ اک پھندے ہی میں پھنسنا ہے جب انسان کو 
دوش پر دام سیاہ سنبلستاں کیوں نہ ہو 
جب فریبوں میں ہی رہنا ہے تو اے اہل خرد 
لذت پیمان بار سست پیماں کیوں نہ ہو 
یاں جب آویزش ہی ٹھہری ہے تو ذرے چھوڑ کر 
آدمی خورشید سے دست و گریباں کیوں نہ ہو 
اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوشؔ 
.زندگی پر سایہ زلف پریشاں کیوں نہ ہو

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *