Iztirab

Iztirab

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے 
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے 
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی 
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے 
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح 
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے 
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر 
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے 
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی 
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے 
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو 
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے 
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے 
.سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *