لہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں
چراغ بام سے جس کو اتر کے دیکھتے ہیں
ملائمت ہے غزل کی سی اس کی باتوں میں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
صحیفۂ لب و رخسار و پیرہن اس کا
تلاوتوں میں ہیں پتے شجر کے دیکھتے ہیں
بلا کے نامے ہیں دو سیپیائی آنکھوں میں
گریز و گردش و غمزے نظر کے دیکھتے ہیں
بلائیں لیتے ہوئے حسن بے نہایت کی
تری طرف ترے عشاق ڈر کے دیکھتے ہیں
چراغتے ہیں کسی نظم کے گھنے ابرو
کسی غزل کی جدائی میں مر کے دیکھتے ہیں
ٹھہر گیا ہو نہ آواز پا تری سن کر
سو دل پہ رعشہ زدہ ہاتھ دھر کے دیکھتے ہیں
کرختگی ہے نہ خود رفتگی نہ فہمائش
مزاج بدلے ہوئے ہم سفر کے دیکھتے ہیں
رکے ہوئے ہیں بہت لوگ دیکھنے کے لیے
سو ہم بھی شعبدے اس خواب گر کے دیکھتے ہیں
بھری ہے رنج کی بارش سے عمر کی کاریز
ہم ایک کونے میں بیٹھے ہیں گھر کے دیکھتے ہیں
اب اٹھ بھی جائے کوئی خواب گاہ گریہ سے
وہ پو پھٹی وہ منارے سحر کے دیکھتے ہیں
یہ سیمیائی بدن خواب نیم شب تو نہیں
سو خال و خد کی تمازت کو ڈر کے دیکھتے ہیں
کٹی ہے عمر غزل زادگاں کی صحبت میں
انہی کے کوچے میں آخر بکھر کے دیکھتے ہیں
اے تیرے سبزۂ رخسار کی دلآویزی
نواح چشم سے آنسو گزر کے دیکھتے ہیں
مشقتی ہیں ترے کاخ و کوئے ہجر کے ہم
شراب ہجر پیالے میں بھر کے دیکھتے ہیں
جھکائے کاندھوں کو عشاق پا بہ گل کی طرح
نڈھال پیاس سے ہم لوگ تھر کے دیکھتے ہیں
بلا کا قحط ہے سیلاب ہے تعطل ہے
کوئی وطن ہے مناظر غدر کے دیکھتے ہیں
ہو اذن سنگ لحد کے طواف کا عامرؔ
طیور اڑتے ہوئے کاشغر کے دیکھتے ہیں
چلی ہے تہمت و تکذیب کی ہوا عامرؔ
سو شہر خاک و خبر میں ٹھہر کے دیکھتے ہیں
عامر سہیل