مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی ماں کی آنکھیں چوم لیجے روشنی بڑھ جائے گی موت کا آنا تو طے ہے موت آئے گی مگر آپ کے آنے سے تھوڑی زندگی بڑھ جائے گی اتنی چاہت سے نہ دیکھا کیجیے محفل میں آپ شہر والوں سے ہماری دشمنی بڑھ جائے گی آپ کے ہنسنے سے خطرہ اور بھی بڑھ جائے گا اس طرح تو اور آنکھوں کی نمی بڑھ جائے گی بے وفائی کھیل کا حصہ ہے جانے دے اسے تذکرہ اس سے نہ کر شرمندگی بڑھ جائے گی