عقل ہے تو مرا کہا کر تو محو یاد علی رہا کر تو یک طرح یہ بھی ہے رہا کر تو اشک رخسار پر بہا کر تو یا علی یا علی کہا کر تو نہیں ورد و وظیفہ کچھ درکار سبحہ گردانی سے کر استغفار اس کو جپنا ہے عاقلوں کا شعار چپکے چپکے ہو یا پکار پکار یا علی یا علی کہا کر تو متفق اس پہ ہیں خواص و عوام کہ ولا اس کی معرفت ہے تمام ہو نماز سحر کہ طاعت شام سر فرو کر پس از درود و سلام یا علی یا علی کہا کر تو لحظہ لحظہ جدا ہے اس کی شان اس کی عادت مروت و احسان دوستی اس کی عین ہے ایمان چلے جب تک زباں غنیمت جان یا علی یا علی کہا کر تو ایسے مظہر کا فہم ہے دشوار ہے یہ وہ ایک جس کے نام ہزار گرم تسبیح اس کے ہیں ابرار اللہ اللہ کی جا بھی سو سو بار یا علی یا علی کہا کر تو وہی احیاکن عظام رمیم وہی رحماں وہی رؤف و رحیم دم بخشش وہی رسول کریم گہ جرأت وہی علی عظیم یا علی یا علی کہا کر تو جور انواع دشمنوں کے سہ پر نہ کر یار گفتگو بے تہ دوستی میں علی کی بیخود رہ بات یہ ہے گی اور کچھ مت کہہ یا علی یا علی کہا کر تو اسم یہ ایک جو مکرم ہے سب کے نزدیک اسم اعظم ہے یہ سب اوراد پر مقدم ہے غرض اے ہم نشیں جو آدم ہے یا علی یا علی کہا کر تو رہ ولاے علی کا خواہش مند ہے یہ شیوہ خدا رسول پسند دب کے ہرگز نہ رکھ زباں کو بند پست کرنے کو مدعی کے بلند یا علی یا علی کہا کر تو بدرآسا علی تمام ہے نور ذات پاک اس کی ہے علیم صدور بھول مت اس کو گر تجھے ہے شعور یاد خاطر رہے ضرور ضرور یا علی یا علی کہا کر تو سونپ رکھ اس کو اپنی موت و حیات رحمت صرف ہے علی کی ذات بس ہے اس کی ولا براے نجات باتیں یوں سو ہیں پر یہی ہے بات یا علی یا علی کہا کر تو شوق تیرے تئیں نہیں ہے ہنوز ورنہ سینہ رہا کرے پرسوز اس طرح جیسے طفل نوآموز سیکھے جو حرف وہ کہے شب و روز یا علی یا علی کہا کر تو ورد اوراد کا نہ لے تو نام شغل و اشغال چھوڑ بیٹھ تمام ذکر اذکار سے تجھے کیا کام ایک دو دم ہمیشہ صبح و شام یا علی یا علی کہا کر تو خوف محشر سے میرؔ حال ہے کیا یہ حواسوں کا اختلال ہے کیا اس سے محشور رہ ملال ہے کیا ہے علی تو یہ پھر خیال ہے کیا یا علی یا علی کہا کر تو
میر تقی میر