ہے حقیقت سے تو اگر آگہ یاد میں روز و شب علی کی رہ کعبہ اس کا ہی در ہے اے ابلہ میرے مولا کی ذات پاک ہے وہ جس کو کہتے ہیں لا شریک لہ اک تلطف میں خاک ساری زر اک توجہ میں قطرہ آب گہر اک نظر میں نہال خشک ہو تر اک سخن میں تمام یہ بہتر اعرج و اعمیٰ ابرص و اکمہ ہاتھ پکڑے دم مصائب یہ یار ہووے گہ نوائب یہ ہے غرض مظہر عجائب یہ مستقل ہے نبیؐ کا نائب یہ جو کہے سو یہ کچھ کرے سو یہ ہر نفس لب پہ گفتگو اس کی ہر زماں جی کو جستجو اس کی پوچھ مت کچھ ولا سے تو اس کی خواہش اس کی ہے آرزو اس کی مطلب و مدعا و مقصد وہ شان ارفع تری فلک کردار ایک ہے تو برابر دو ہزار اللہ اللہ ترا ثبات و قرار حلم سے تیرے کہتے تھے کہسار سن کے کبک دری ہنسے قہ قہ دیکھے سب لوگ پھر کے چاروں دانگ مردمی یاں کی ہے عجائب سوانگ شخص ہمت کے ان کے ہاتھ نہ مانگ مانگے ہے تو جو کچھ خدا سے مانگ جو کہے ہے سو تو علی سے کہہ شاد اس نام سے جو خوگر ہے اسم اعظم یہی مقرر ہے انس کرنا اسی سے بہتر ہے یہی جنت یہی تو کوثر ہے اس میں تو پھر بگاہ یا بیگہ خلق سب دیکھے اس کے ہاتھ کی اور لے سلیماں سے مفتقر تا مور کف ہمت کی اس کے دھوم ہے زور ظرف ہوتا تو یوں نہ کرتے شور بحر و عماں نکل گئے بے تہ ہے وہ امیدگاہ خلق خدا روز محشر اسی سے سب کو رجا وہ مروت شعار و جملہ حیا بحر ذخار جود و کان عطا اس سے نفع گدا تمتع شہ مرتبہ کچھ نہ پوچھو اس گھر کا بندگی یاں کی فخر قیصر کا شاہ چیں پیش دست قنبر کا آسماں ہے گدا اسی در کا دیکھتے ہیں ادھر ہی مہر و مہ اس کی ہمت اسی کو بن آوے دولت اس کی جہان سب کھاوے بار اس در پہ جو گدا پاوے ایک آواز کرکے لے جاوے مال و اسباب و ملک و تاج و کلہ میرؔ عازم ہوئے ہو کیدھر کے جو تلاشی ہو یار و یاور کے رہگرے دوستی حیدر کے نہیں محتاج ہوتے رہبر کے ہے اسی راہ میں خدا ہمرہ
میر تقی میر