Iztirab

Iztirab

مہمان

اس کو اک دن تو جانا تھا 
مجھ سے کیا رشتہ کیا ناتا 
بس پل دو پل کو ٹھہرا تھا 
پل دو پل ہنستے گزرا تھا 
میں تب بھی سوچا کرتی تھی 
یہ ساتھ بڑا لمحاتی ہے 
جذبے کی تھوڑی سی گرمی 
جلتے چھالے بن جاتی ہے 
اس بات کو بیتے سال ہوئے 
پھر دنیا ہے پہلے جیسی 
سب رنگ وہی رعنائی وہی 
سب حسن وہی پر کیا کیجے 
سچے تھے مرے سب اندیشے 
اب بھی یوں ہی بیٹھے بیٹھے 
.یاد آئے تو دل دکھ جاتا ہے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *