Iztirab

Iztirab

نذر فراق

اے دل کافر عجز سے منکر آج ترا سر خم کیوں ہے 
تیری ہٹیلی شریانوں میں یہ بے بس ماتم کیوں ہے 
آنکھ تو رونا بھول گئی تھی پھر ہر منظر نم کیوں ہے 
مت روکو بہنے دو آنسو کسی کو کرتے ہیں پرنام 
آپ جھکا ہے جھکنے دو سر چھپا تھا اس میں کوئی سلام 
شاید اس کے حضور میں ہو تم جس کو کہتے ہیں انجام 
وہ ہستی کی سرحد آخر ہوا جہاں ہر سفر تمام 
بے بس ہے انساں بے بس ہے تکتی رہ گئی روتی شام 
اٹھ گیا کوئی بھری دنیا سے باقی رہے خدا کا نام 
یا پھر کاغذ پر پرچھائیں ملے گا جس کو ثبت دوام 
یہ ٹکڑے انسانی دل کے شاعر اور شاعر کا کلام 
ناز کروں گی خوش بختی میں میں نے فراقؔ کو دیکھا تھا 
اجڑے گھر میں وہ تہذیبوں کے سنگم پر بیٹھا تھا 
گرم ہم آغوشی صدیوں کی ہوگی کتنی پیار بھری 
جس کی بانہوں میں کھیلی تھی اس کی سوچ کی سندرتا 
شعر کا دل شفاف تھا اتنا' جیسے آئینۂ تاریخ 
کیا بھر پور وصال تھا جس نے اس شاعر کو جنم دیا 
گر تاریخ نے پاگل ہو کر خود اپنا سر پھوڑا ہے 
خون اچھالا ہے گلیوں میں اپنا ہنڈولہ توڑا ہے 
چھینٹ نہ تھی دامن پر اس کے کون گھاٹ دھو بیٹھا تھا 
جسے سمجھتے ہو نا ممکن وہ اس انساں جیسا تھا 
انساں بھی اتنا معمولی جیسے اپنا ہمسایہ 
اپنے شعر سنانا اس کا اور خود حیراں ہو جانا 
باتوں میں معصوم مہک تھی آنکھوں میں بے چین لپک 
خاموشی کے وقفے یوں' جیسے اس نے کچھ دیکھا تھا 
پیڑ بہت جھیلی تھی اس نے اتنی بات تو ظاہر تھی 
لہجہ میں شوخی تھی جیسے راکھ میں چمکے انگارہ 
سنگم کے پانی پر میں نے دیکھی تھی کیسی تصویر 
اڑا لہک کر اک جل پنچھی کھینچ گیا پانی پہ لکیر 
جمنا کی نیلی گہرائی بھید بھری چپ سے بوجھل 
گنگا کے دھارے کی جنبش اجلی طاقت اور بے کل 
اس پانی میں عکس ڈالتا آسمان کا اک ٹکڑا 
مٹی کے بت ہرے ناریل چندن لگا کوئی مکھڑا 
وہ دھاروں پر ناؤ کھیتا سوکھا پنجر مانجھی کا 
دان کے پیسے گنتا پنڈت تانبہ سورج سانجھی کا 
جمنا' پر مینار قلعہ کے گنبد کا ترچھا سایہ 
پاکستان سے آئے مہاجر گیندے کی ٹوٹی مالا 
پانی میں چپو کی شپ شپ باتوں کے ٹوٹے ٹکڑے 
یہیں کہیں پر ہم سے اوجھل سرسوتی بھی بہتی ہے 
جو سمجھی جو آگے سمجھوں چھلک رہا ہے دل کا جام 
وہ منظر جو خود سے بڑا تھا اس کا گھیرا تمہارے نام 
یہ کمرے کا ماند اجالا باہر ہوک پپہیے کی 
کھڑکی پر بوندوں کی دستک سانسیں بھرتی خاموشی 
پوری بات نہیں بتلاتا گونگے آنسو رو دینا 
تیری دھرتی سہہ نہ سکے گی اتنے حسن کو کھو دینا 
تنہا اور اپاہج بوڑھے تجھے نہ مرنے دیں گے لوگ 
.ابھی تو جیون بانجھ نہیں ہے پھر تجھ کو جنمیں گے لوگ

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *