وہ اپنے آنسو
ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے
جب اس کی مصنوعی پلکیں
اس کا بدن چھپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں
دس ناخن تراش
اس کے ناخنوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں
وہ بچوں کی طرح برتے جانے سے
تنگ آ چکی ہے
پر کشش بدن کو ملنے والے تمغوں کے درمیان سے
وہ مچھلی کی طرح
تیر کر نکل جاتی ہے
اپنے تلووں کے نیچے
وہ گہرائی اور ڈراما چاہتی ہے
اس کے بال
شیمپو کی شیشی پر لکھی ہوئی ہدایات پر
سختی سے عمل کرتے ہیں
ماحولیاتی آلودگی کا خیال کرتے ہوئے
وہ کوئی بوسہ نہیں دیتی
اس کا تکیہ
دنیا کے تمام عاشقوں کے آنسو
جذب کر سکتا ہے
افضال احمد سید