Iztirab

Iztirab

پورواآنچل

مشرقی یوپی کرفیو میں 
یہ دھرتی کتنی سندر ہے 
یہ سندر اور دکھی دھرتی 
یہ دھانی آنچل پورب کا 
تیز رفتار ریل کے ساتھ 
ہوا میں اڑتا جاتا ہے 
پڑا جھل مل لہراتا ہے 
دور تک ہرے کھیت کھلیان 
یہ دھرتی عورت کوئی کسان 
سنبھالے سر پر بھاری بوجھ 
چلی ہے کھیت سے گھر کی اور 
وہی گھر جس کی چھت پر آج 
کرودھ کا گدھ منڈراتا ہے 
جھپٹ کر پر پھیلاتا ہے 
اوس سے گیلا ہے سبزہ 
کہ گیلے ہیں میرے دو نین 
پڑے ماٹی پتھر کے ڈھیر 
وہی مسجد مندر کے پھیر 
تنے لوگوں کے تیور دیکھ 
اسی دھرتی پر سویا پوت 
جاگ کر تمہیں مناتا ہے 
کبیراؔ کچھ سمجھاتا ہے 
جہاں ہوں نفرت کے گھمسان 
نہیں رہتے اس جا بھگوان 
نہیں کرتا ہے نظر رحیم 
نہیں کرتے ہیں پھیرا رام 
تمہاری منت کرتا ہے 
خاک پر سیس جھکاتا ہے 
کبیراؔ کچھ سمجھاتا ہے 
اسی سرجو ندیا کے پار 
کمل کنجوں پر جہاں بہار 
کھڑے ہیں ہرے بانس کے جھنڈ 
گڑا ہے گوتم کا سندیش 
کھلے ہیں جہاں بسنتی پھول 
کھدا ہے پتھر پر اپدیش 
اڑے جب دو فرقوں کی آن 
تلے ہوں دے دینے پر جان 
ہے اصلی جیت کی بس یہ ریت 
کہ دونوں جائیں برابر جیت 
نتیجہ خیز یہی انجام 
نہ سمجھو ورنہ جنگ تمام 
ہوئی جس یدھ میں اک کی ہار 
وہ ہوتا رہے گا بارم بار 
نہ دونوں جب تک مٹ جائیں 
نہ دونوں جائیں برابر ہار 
یہی ٹکراؤ کا ہے قانون 
یہی گوتم کا اتم گیان 
کہ جس کے آگے ایک جہان 
ادب سے سیس جھکاتا ہے 
تمہی تو وارث تھے اس کے 
تمہیں کیوں بسرا جاتا ہے 
سجے رہنما کے سر دستار 
پڑیں پانڈوں کے گلے میں ہار 
جلے ہیں جن کے چولھے روز 
بھرے ہیں جن کے سدا بھنڈار 
ارے تو مورکھ کیوں ہر بار 
جان کر دھوکا کھاتا ہے 
.لہو میں آپ نہاتا ہے

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *