Iztirab

Iztirab

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم 
پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم 
چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل پہ بے خودی 
پھر زندگی کو ہوش میں لائے ہوئے ہیں ہم 
جس کا ہر ایک جزو ہے اکسیر زندگی 
پھر خاک میں وہ جنس ملائے ہوئے ہیں ہم 
ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز 
پھر غم کا بار دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں ہم 
ہاں کون درس عشق جنوں کا ہے خواست گار 
آئے کہ ہر سبق کو بھلائے ہوئے ہیں ہم 
آئے جسے ہو جادۂ رفعت کی آرزو 
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم 
بیعت کو آئے جس کو ہو تحقیق کا خیال 
کون و مکاں کے راز کو پائے ہوئے ہیں ہم 
ہستی کے دام سخت سے اکتا گیا ہے کون 
کہہ دو کہ پھر گرفت میں آئے ہوئے ہیں ہم 
ہاں کس کے پائے دل میں ہے زنجیر آب و گل 
کہہ دو کہ دام زلف میں آئے ہوئے ہیں ہم 
ہاں کس کو جستجو ہے نسیم فراغ کی 
آسودگی کو آگ لگائے ہوئے ہیں ہم 
ہاں کس کو سیر ارض و سما کا ہے اشتیاق 
دھونی پھر اس گلی میں رمائے ہوئے ہیں ہم 
جس پر نثار کون و مکاں کی حقیقتیں 
.پھر جوشؔ اس فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *